Maktaba Wahhabi

476 - 579
سے نہیں ہیں بلکہ محض اس کے ارادے سے ہوتے ہیں۔ حسنات پر ثواب دینا اور سیئات پر عقاب کرنا اس کا عدل ہے۔ کسی نے اس پر کوئی کام واجب نہیں کیا ہے الا یہ کہ وہ خود اپنے اوپر واجب کر لے۔ یقینا اس نے اپنے اوپر رحمت کو لکھ لیا ہے، چنانچہ متعدد آیات و احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں۔ تکلیف کا اعتبار عقل، تمییز اور بلوغ پر ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ استطاعت فعل کے ہمراہ ہے تو گزارش یہ ہے کہ قرآن وحدیث اس پر ناطق نہیں ہیں۔ بندے کو اس چیز کی تکلیف نہیں دی جاتی جو چیز اس کی وسعت اور طاقت میں نہ ہو۔ بندوں کے افعال ۔۔۔ اللہ کی مخلوق: افعالِ عباد اللہ کی مخلوق اور بندے کا فعل ہے۔ آیتِ کریمہ ﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ﴾[الصافات: ۹۶] [حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو] اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔ خالق نے خلق کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اور عمل کا انتساب لوگوں کی طرف کیا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ فعل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور کسب بندے کی طرف سے تو یہ بات عقل میں نہیں سماتی ہے اور کتاب وسنت اس کی موافقت نہیں کرتے ہیں۔ ہر شخص اپنی موت مرتا ہے: مقتول اپنی اجل ہی سے فوت ہوتا ہے اور اجل ایک ہی ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِِذَا جَآئَ اَجَلُھَا﴾[المنافقون: ۱۳] [اور اللہ کسی جان کو ہر گز مہلت نہیں دے گا جب اس کا وقت آگیا] کئی آیات کریمات میں یہی ارشاد ہوا ہے۔ لوگ حلال وحرام سے جو کچھ بھی کھاتے ہیں وہ رزق ہے اور ہر شخص اپنا رزق پورا کرتا ہے۔ آیتِ کریمہ: ﴿وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا﴾[ھود: ۶] [اور زمین میں کوئی چلنے والا (جاندار) نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی پر ہے] کا اطلاق اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔ عذابِ قبر حق ہے: کافروں اور گناہ گار مومنوں کے لیے عذابِ قبر، اہلِ طاعت کے لیے قبروں میں نعمتوں کا حاصل ہونا، منکر و نکیر کا سوال، مردوں کا دوبارہ جی اٹھنا، اعمال کا وزن، کتاب کا ملنا، سوال و حساب
Flag Counter