Maktaba Wahhabi

480 - 579
اس مواخذے سے منکر ہے۔ فاسد آرا کے ساتھ چند عقائد مقرر کرنا اور اس کے سوا کو کفر جاننا، گو وہ الفاظ ظواہر قرآن و حدیث میں ہوں، اصل میں قرآن وحدیث کو غلط قرار دینا ہے۔ حق تعالیٰ نے بیان کے لیے قرآن کریم نازل فرمایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افصح الناس تھے، پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ ظاہر میں ایسے الفاظ کا اطلاق کرتے جن پر اعتقاد لانا کفر ہوتا۔ یہ جراَت ہوئی تو ایسی جماعت کو کہ ان میں بچہ جوان ہو گیا اور جوان بوڑھا ہو گیا اور عادت، جو ایک طبیعت ثانی ہے، اس سے جاملی اور حقیقت کی تفتیش کیے بغیر اندھے اور بہرے کی مانند اس کے اذعان و اعتقاد کی طرف دوڑ پڑے اور اپنے ایمان کو برباد کر دیا۔ خبردار! ان کی تقلید کی راہ پر ہر گز نہ چلنا چاہیے، اگرچہ وہ لوگوں کی نظر میں اعلم زمان اور شیخ المشائخ ہی کیوں نہ ہوں۔ بخدا! حق تعالیٰ عادل ہے، وہ اس شخص سے جو کتاب وسنت کے ظاہر کے مطابق کہتا ہے اور واضح قرآن وحدیث پرایمان لایا ہے، ہر گز ناخوش نہ ہو گا۔ اس کا عدل ظلم کا مقتضی نہیں ہے۔ بے کیف ظواہر پر ایمان لانا صحابہ، تابعین اور ائمہ مجتہدین رضی اللہ عنہم کا مذہب ہے۔ اگر کوئی یہ چاہے کہ وہ سلف کی اس جماعت سے ایک حرف بھی اس کے خلاف نقل کرے تو وہ ہر گز نہیں کر سکتا۔ وزنِ اعمال: قیامت کے دن میزان، اعمال کا وزن، پل صراط اور سوال وجواب وغیرہ امور حسیہ سے ہوں گے۔ معانی واعراض جسم اور جواہر کی صورت اختیار کر لیں گے، چنانچہ نیکوکار مومنوں کے دائیں ہاتھ میںاعمال نامے دیے جائیں گے اور کفار وفجار کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں یا پشت کے پیچھے سے دیے جائیں گے۔ تقوی اور اس کی اہمیت: جب اس اعتقاد کے ساتھ، جو کتاب وسنت کا خلاصہ ہے، شاہدِ ایمان کا چہرہ نورانی ہو جائے تو اب طالبِ نجات کو یہ چاہیے کہ وہ تقوی وپرہیز گاری کو، جو اعمال کی بنیاد ہے، اختیار کرے اور جس کام کو پیش نہاد خاطر رکھتا ہو، اس میں اس تقوے سے انحراف نہ کرے۔ کتاب اللہ کی وہ آیات جو تقوے کی فضلیت پر دلالت کرتی ہیں ڈیڑھ سو سے زیادہ ہیں اور چالیس سے زیادہ آیات میں تقوے کا حکم دیا گیا ہے۔ خصائلِ خیر میں ذکر وثنا کے اعتبار سے کوئی چیز تقوے سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اسی طرح
Flag Counter