Maktaba Wahhabi

503 - 579
محض اپنی رحمت وفضل سے اسے جنت میں ٹھہرایا، کیونکہ وہ رحمن، رحیم، غفور اور ودود ہے۔ تو دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو مال دار بنایا، پھر فرمایا: ﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا﴾[البقرۃ: ۲۴۵] [کون ہے وہ جو اللہ کو قرض دے، اچھا قرض؟] حالانکہ مال اور ملکیت دونوں اللہ کی مِلک اور مُلک ہیں۔ اب تیرا یہ قیاس کرنا کہ یہ کس لیے اور کیوں کر ہے اور اس کا یہ حکم ظلم ہے تو یہ سب تیری تنگیِ ظرف اور قصورِ فہم کے سبب سے ہے، کیونکہ تجھ پر یہ راز افشا نہیں ہوا۔ تو نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کام کو مخلوق کے کام پر قیاس کیا۔ اللہ تعالیٰ ایسے قیاس سے بہت بلند ہے اور وہ اس سے برتر ہے کہ لوگوں کی عقول اس کی حقیقت کا احاطہ کر سکیں۔ چونکہ تقدیر کا راز مخلوق پر مشتبہ ہے، اس لیے مخلوق کو اشکال کے سبب اس میں خوض اور بحث کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ارادہ دل میں ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس ارادے کو دل میں پیدا کرتا ہے، اس لیے وہ فعل دل کے ارادے سے ظاہر ہوتا ہے اور دل کا ارادہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو فعل بھی اللہ تعالیٰ کے ارادے سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس فعل کا خالق ہے اور بندہ کاسب ہے۔ اس لیے تلف شدہ اشیا کا تاوان، جرائم کی سزا اور اقامتِ حدود کی اضافت بندے کی طرف ہوتی ہے۔ کلامِ الٰہی: اللہ تعالیٰ کا کلام عظیم ہے۔ کلام کی عظمت متکلم کی عظمت کے مطابق ہوتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا کلام اس کی عظمت سے عظیم، اس کے جلال سے جلیل، اس کی کبریائی سے کبیر اور اس کے وعد، وعید، حدود، احکام اور اخبار سے قریب ہے اور کنہ، غایت، عظمِ شان، قہرِ سلطان اور سطوعِ نور کے اعتبار سے بعید ہے۔ اس کلام پاک کا رتبہ بڑا عالی اور اس کی قدر و منزلت بڑی عظیم ہے۔ اس کے عظمِ شان کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہی قول کافی ہے: ﴿ قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَ لَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا﴾[بني إسرائیل: ۸۸] [کہہ دے اگر سب انسان اور جن جمع ہوجائیں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہیں لائیں گے، اگرچہ ان کا بعض بعض کا مددگار ہو]
Flag Counter