Maktaba Wahhabi

504 - 579
عالمِ شہادت میں اس کی مثال ایسی ہے جیسے سورج کہ مخلوق اس کی شعاع سے فائدہ اٹھاتی ہے، لیکن کسی مخلوق میں یہ قدرت نہیں ہے کہ اس کے نزدیک ہو سکے، اگرچہ اس تک راہ پائے۔ کسی نے کہا ہے کہ یہ کلام حرف وصوت کے بغیر ہے، اس لیے کہ اس پر حصر مشکل ہوا۔ کسی نے کہا: حرف وصوت کے ساتھ ہے، کیونکہ اس پر اس کا غائب ہونا دشوار ہوا۔ لیکن سبیل امثل اور طریق اعدل یہ ہے کہ وہ اس میں نزاع کرنا ترک کر دے۔ بندے نے جب یہ کہا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، تو یہ اعتقاد رکھا کہ اس کی نہی واجب الاتباع ہے، اس کے احکامِ حلال وحرام کا التزام کرنا، اس کے وعد وعید کا سننا اور اس کے حقوق وحدود کے ساتھ قیام کرنا لازم ہے تو اگر اس نے اس کے بعد اس بات کا تعرض نہ کیا کہ وہ قدم، حدث، تلاوت، متلو، حرف اور صوت سے بحث کرے تو یہ اس کے لیے ضرر رساں ہے نہ اس سے کوئی واجب فوت ہوا ہے۔ اب اگر وہ سو برس زندہ رہے اور اس کے دل میں اس بات کا خطرہ تک نہ ہو تو بھی کچھ ڈر نہیں ہے۔ یہی طریق قویم اور منہج مستقیم ہے۔ اس امر میں نزاع کرنا ایسا ہے کہ کسی شخص کے پاس بادشاہِ وقت کا واجب الاذعان فرمان آئے اور اس فرمان میں امر ونہی ہو، یہ شخص ا س بات میں مشاجرہ کرنے لگے کہ اس فرمان کا خط کیا ہے اور اس کی عبارت کیسی ہے اور اس کی فصاحت وبلاغت کس قسم کی ہے، لیکن اس کے معانی سمجھنے اور اسے عمل میں لانے سے ذاہل وغافل رہے۔ اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا: اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ عرش پر مستوی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ وہ آخر شب میں نزول فرماتا ہے۔ اس کے سوا ید، قدم، تعجب اور تردد کے بارے میں اس قسم کی بہت سی حدیثیں آئی ہیں، جو توحید کے دلائل ہیں۔ چنانچہ تشبیہ اور تعطیل کے ساتھ ان میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم ان صفات کی خبر نہ دیتے تو عقل کو یہ جسارت ہر گز نہ ہوتی کہ وہ اس چراگاہ کے ارد گرد پھرتی، بلکہ عقلِ عقلا اس کے سامنے متلاشی بن جاتی۔ اللہ عزوجل اپنے بندوں سے قریب ہے جس طرح اس نے خبر دی۔ اور جو کچھ اس نے ظاہر کیا ہے وہ اس کے نفس پر دلیل ہے۔ اس نے کبریا کے چہرے سے حجاب وپردہ اٹھا دیا اور عظمت و عُلٰی کے کچھ انوار کو کھول دیا ہے۔ یہ ساری اخبارِ صفات تجلیاتِ الٰہیہ اور الطافِ جلیہ ہیں۔ جس نے انھیں سمجھا، سمجھ لیا اور جس نے نہ سمجھا
Flag Counter