Maktaba Wahhabi

515 - 579
وعداوت کا حدوث ہوا۔ اگر تجھے نصیحت قبول ہے تو تو اس تصرف سے باز رہ اور سب سے یکساں محبت اور الفت رکھ۔ ان میں سے کسی کی محبت کو کسی کی محبت پر ترجیح نہ دے۔ تفضیل وغلو سے بھی باز رہ، کیونکہ ان کا مقدمہ خوض کرنے سے بھی بڑا ہے۔ تجھے عقیدۂ سلیمہ اختیار کرنے میں اسی قدر کافی ہے جو کہا گیا۔ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ تو ایک سے دوسرے کی نسبت زیادہ محبت رکھے۔ ایک کے فضل کا دوسرے کے فضل سے زیادہ تر معتقد ہو۔ بلکہ تو سب کا محب اور برابری کے ساتھ سب کے فضل کا معترف رہ۔ خلفاے اربعہ کی خلافت کا اعتقاد کر۔ علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما جب باہم قتال وخصام کرتے تھے تو دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کو برا کہتے، لیکن ایک نے دوسرے کو کافر نہ کہا۔ پس تو بھی کسی جاہل سابّ کو کافر نہ کہہ۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اپنی خلافت میں مجتہد مصیب تھے اور سب سے زیادہ خلافت کے حقدار تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کا خلافت کی بابت اجتہاد خطا تھا، کیونکہ معاویہ رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں، خلافت کا استحقاق نہ رکھتے تھے، و اللّٰہ ینفعنا بمحبتہم ویحشرنا في زمرتہم آمین۔ احوالِ برزخ وآخرت: ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ موت کے بعد میت کے پاس جو کچھ کہا جاتا ہے یا جو کچھ اس میت سے کہا جاتا ہے، وہ اسے ویسے ہی سنتا ہے جس طرح وہ اپنی زندگی میں سنتا تھا اور وہ نہلانے والے کی سختی ونرمی سے متاثر ہوتا ہے۔ جو کوئی اس کے بدن کو ہاتھ لگاتا ہے، وہ اسے جانتا ہے۔ وہ حواس جو منعدم ہو گئے ہیں وہ اس میں چھپے ہوتے ہیں۔ ہمیں امرِ میت، سماع اور رویتِ میت میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے، اخبار اسی پر دلیل ہیں۔ جب تو تفتیش کرے گا تو پالے گا۔ اہل وخاصہ خدا نے اس امر کو اپنے ذوق سے پایا ہے اور جان کر یقین کیا ہے۔ اللہ نے ان پر یہ بات ظاہر کر دی ہے اور انھیں اس حال پر مطلع فرما دیا ہے۔[1] دو فرشتے منکر ونکیر آ کر سوال کرتے ہیں۔ یہ سوال مدفون ہی سے ہوتا ہے۔ ظاہر امر یہ ہے کہ جلے ہوئے اور غرق شدہ سے بھی ہوتا ہے اور اس شخص سے بھی جسے کسی درندے نے کھا لیا ہے، غرض کہ کوئی کسی طرح پر مرے باوجود اختلافِ احوال کے مسؤل ہوتا ہے۔ یہ سوالات اللہ کی طرف سے بندوں کے لیے ایک ابتلا و آزمایش ہے۔ یہ من جملہ منازلِ آخرت اور مواقفِ آخرت
Flag Counter