Maktaba Wahhabi

532 - 579
((الإیمان بضع ۔۔۔ الخ )) [1] میں قول وعمل دونوں کو ایمان ٹھہرایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاصی اور کبائر کے ارتکاب پر اہلِ قبلہ کو کافر نہ کہنا چاہیے، بلکہ معاصی کے باوجود اخوتِ ایمانی اور اتحادِ اسلامی ہنوز باقی ہے۔ فاسق سے مطلق ایمان کا نام سلب ہوتا ہے نہ وہ ہمیشہ آگ میں رہے گا، بلکہ وہ ناقص الایمان مومن ہے یا مومن بالایمان اور فاسق بالکبیرہ ہے۔ اسی لیے کسی اہلِ قبلہ پر کسی گناہ یا کبیرہ کے سبب خلودِ نار کا حکم لگایا جا سکتا ہے نہ وہ کسی عمل کے سبب دائرۂ اسلام سے خارج ہی ہوتا ہے الا یہ کہ کسی حدیث میں اسے کافر فرمایا گیا ہو یا اس میں کفریہ صفات پائی جائیں یا وہ قطعیات و ضروریاتِ دین کا منکر ہو یا ایسی بدعت ایجاد کرے جو اسے کفر تک پہنچا دے۔ بہتر (۷۲) فرقوں میں سے اکثر فرقے ایسے ہیں جنھیں ائمہ سنت نے کافر ٹھہرایا ہے، اگرچہ وہ اہلِ قبلہ ہیں، جیسے روافض، خوارج، جہمیہ اور معتزلہ وغیرہ۔ ایمان واسلام کا بیان: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: کلمہ طیبہ کی شہادت، نماز، زکات، روزہ اور حج۔ یہ حقیقتِ اسلام ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کے ایمان کے بارے میں سوال کرنے پر فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ آدمی اللہ پر، اس کے فرشتوں، کتابوں اور رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اس بات پر کہ تقدیر کا خیر وشر اللہ کی طرف سے ہے، ایمان لائے۔ جبریل علیہ السلام نے پوچھا میں ان چیزوں پر ایمان لے آؤں گا تو کیا میں مومن بن جاؤں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہاں! (رواہ مسلم وأبو داؤد وغیرھما) [2] امام زہری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کلمہ ہے اور ایمان عمل صالح کا نام اور احسان اخلاص فی العمل ہے۔ تقدیر پر ایمان: تقدیر پر اور اس کے خیر وشر پر ایمان لانا واجب ہے۔ جہاں میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو
Flag Counter