Maktaba Wahhabi

546 - 579
خون کی طرح رگوں میں دوڑتے ہیں۔ جنات کا وجود خود قرآن مجید سے ثابت ہے۔ ملائکہ، جن اور شیاطین کے وجود کا منکر کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ہے، وہ اسلام سے خارج اور کفر میں داخل ہے۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں: کبیرہ گناہ کا مرتکب مسلمان آگ میں ہمیشہ نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کا کبائر سے عفو اور در گزر کرنا جائز ہے۔ اسی طرح اس شخص سے بھی جو توبہ کیے بغیر مر گیا ہے، لیکن یہ بطور خرقِ عادت کے ہو گا۔ انبیا کا مبعوث ہونا اور اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو رسولوں کی زبان پر امر ونہی کے ساتھ مکلف ٹھہرانا حق ہے۔ انبیا کفر اور کبائر پر اصرار کرنے سے معصوم ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں محفوظ رکھتا ہے۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت تمام جن وانس کی طرف عام ہے، کیونکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: ﴿لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا﴾[الفرقان: ۲۵] [تا کہ وہ جہانوں کے لیے ڈرانے والا ہو] اس کی ایک اور دلیل وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں منقول ہے: (( أُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً )) [1] [میں تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں] اس لفظ ’’خلق‘‘ میں جو عموم ہے یہ محدود نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صور میں پھونکے جانے تک دنیا میں کوئی نبی نہیں ہو گا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ یہ کسی فتنے میں مبتلا کرنے والا نہ ہو اور اس کے قبول کا گمان حاصل ہو۔ اگر اس امر ونہی کا مفسدہ ان کی مصلحت سے زیادہ ہو تو سکوت اختیار کرنا چاہیے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کی مصلحت کا کوئی راستہ کھول دے۔ خلافت اور اس کی ذمے داریاں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت قریش میں ہے جب تک قریش کے دو آدمی بھی دنیا میں باقی ہوں۔ کوئی شخص اپنی طرف سے کسی غیر قریش کو امام نہ بنائے اور خلافت کی بابت قریش سے منازعت اور جھگڑا نہ کرے، ان کے خلاف خروج نہ کرے اور قیامت تک غیر قریش کے لیے امامت کا اقرار نہ کرے۔ ہاں اگر غیر قریش مسلط ہو جائے اور اس کے صرف وعدل میں فتنہ برپا ہوتا ہو تو اس کی
Flag Counter