Maktaba Wahhabi

558 - 579
ایک ضروری امر ہے، کیونکہ کفریہ عمل کے ارتکاب سے سارے اعمال برباد ہو جاتے ہیں۔ علما کی ایک جماعت کے نزدیک ان ضائع شدہ اعمال کی قضاے واجب لازم ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے۔ ان کے اصحاب نے مکفرات کے بیان میں بہت توسیع کی ہے اور بہت سے جملے لکھے ہیں اور باقی ائمہ کی نسبت اس میں زیادہ مبالغہ کیا ہے۔ ان کا قول ہے کہ رِدَّت محبط اعمال ہے۔ ارتداد سے منکوحہ بائن ہو جاتی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک اگرچہ ردت محبط عمل تو نہیں ہے لیکن محبط ثواب ہے۔ اس صورت میں ان دونوں اماموں کے درمیان قضاے واجب کے سوا کوئی اختلاف باقی نہ رہا۔ اگرچہ اس بارے میں اکثر اہلِ علم نے ان کی تقلید نہیں کی ہے، لیکن جہاں تک بن سکے احتیاط ومراعاتِ خلاف کو واجب کرتا ہے۔ خصوصاً اس تنگ باب میں، بلکہ اس سے زیادہ کوئی امر سخت تر نہیں ہے۔ اس لیے ہم اس جگہ معتمد وغیر معتمد خاص مذہب کی قید کے بغیر سب کو لکھتے ہیں، تا کہ مومن ان سب سے محتاط رہے۔ قاضی ثنا اللہ پانی پتی رحمہ اللہ کی کتاب ’’مالا بد منہ‘‘ سے کلماتِ کفر کا بیان: 1۔اگر ایک مسئلے میں کفر کی چند وجہیں ہوں اور ایک وجہ کفر کی نہ ہو تو کفر کا فتویٰ نہ دینا چاہیے۔ قاضی ثناء اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی ایسی چیز کو نہ اپنایا جائے جس میں ایک وجہ کفر بھی موجود ہو۔ 2۔سبِّ شیخین (ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو گالی دینا) اور تفضیلِ علی سے انسان کافر نہیں ہوتا ہے، کیونکہ یہ کام بدعت ہے۔ انتھیٰ میں کہتا ہوں: آیتِ کریمہ: ﴿لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ﴾[الفتح: ۲۹] [تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے] شیخین پر سب وشتم کرنے والے کے کفر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ 3۔اللہ تعالیٰ کے دیدار کو محال جاننا کفر ہے۔ 4۔مجسمہ اور مشبہہ کفار ہیں۔ 5۔اگر کسی نے اپنے اختیار سے کلمۂ کفر کہا اور یہ نہ جانا کہ یہ کفر کا کلمہ ہے تو اکثر علما کا یہ موقف ہے کہ وہ کافر ہو جائے گا، معذور نہ ہو گا۔ اگر بلا قصد کلمۂ کفر زبان سے نکل جائے تو کافر نہ ہو گا۔ میں کہتا ہوں: جب ایسا اتفاق ہو جائے تو بندہ فی الفور تائب اور مستغفر ہو کر کلمۂ طیبہ پڑھ لے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اس کا کفارہ ہو جائے گا۔ 6۔اگر کفر کا ارادہ کیا اور اس پر عمل اگرچہ مدت مدید کے بعد ہو، لیکن وہ فی الفور کافر ہو جائے گا۔
Flag Counter