Maktaba Wahhabi

57 - 579
کے ہوتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ ایمان باقی رہ جاتا ہے، اگرچہ وہ تھوڑی مقدار ہی میں کیوں نہ ہو، جیسے ایک دینار یا نصف دینار یا ایک ذرہ یا ایک رائی کے دانے کے برابر۔ شرکِ اصغر پر اصرار کرنا شرکِ اکبر کا موجب ہے: جہالت اور نادانی کی بنا پر شرک اصغر اور ’’کفرٌ دُونَ کُفرٍ‘‘ کا ارتکاب قابلِ معافی اور قابلِ قبول عذر ہے، لیکن یہ عذرِ جہالت وہاں تک چل سکتا ہے جب تک دلیل کے واضح ہونے کے بعد قبولِ حق سے انکار و استکبار نہ ہو۔ اگر حق واضح ہونے کے بعد اس قول و عمل پر اصرار جاری رہے اور طبعی حجاب یا قوم وملت کے رسوم و رواج وغیرہ رکاوٹ بنیں تو پھر یہ کفر ایمان کی ضد شمار ہوتا ہے اور یہ شرکِ اصغر اپنے فاعل کو شرکِ اکبر تک پہنچا دیتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَ اِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہٗ جَھَنَّمُ وَ لَبِئْسَ الْمِھَادُ﴾ [البقرۃ: ۲۰۶] [اور جب اس سے کہا جاتا ہے اللہ سے ڈر تو اس کی عزت اسے گناہ میں پکڑے رکھتی ہے، سو اسے جہنم ہی کافی ہے اور یقینا وہ برا ٹھکانا ہے] نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ﴾ [المؤمن: ۶۰] [بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں، عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے] لہٰذا کفر و شرک سے بدتر اس پر اصرار کرنا ہے۔ جہنم کے سات درجے اور طبقے ہیں کفار اور مشرکین کو ان کے کفر و شرک کے کم یا زیادہ اور کمزور یا قوی ہونے کے پیشِ نظر ان مختلف طبقات ودرجات میں داخل کیا جائے گا۔ العیاذ باللّٰہ ۔ حق واضح ہونے کے بعد باطل کی بیخ کنی: حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’زاد المعاد‘‘ میں لکھا ہے کہ باطل کا قلع قمع کرنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ان مقاماتِ معصیت کو جلا دیا جائے اور ڈھا دیا جائے جہاں اللہ اور اس کے
Flag Counter