Maktaba Wahhabi

58 - 579
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہوتی ہے یا کی گئی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ضرار کو جلا دیا اور حکم دیا تھا کہ جلانے کے بعد جو باقی بچ گئی ہے اسے ڈھا دو۔ مسجد ضرار وہ مسجد تھی جس میں نماز پڑھی جاتی تھی اور اللہ کا نام بلند کیا جاتا تھا، لیکن چونکہ وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور ان میں تفریق ڈالنے کی غرض سے اور منافقین کی جاے پناہ کے طور پر بنائی گئی تھی اور جب کوئی جگہ اس طرح کی ہو تو مسلمانوں کے امام اور خلیفہ پر واجب ہے کہ وہ اس جگہ کو بیکار اور مسمار کر دے، اسے آگ سے جلا دے یا اس کی شکل و صورت بدل کر کسی اور استعمال میں لے آئے، جس کا م کے لیے وہ جگہ تعمیر کی گئی تھی، اس کام کے لیے اسے باقی نہ چھوڑے۔ جب مسجد ضرار مسمار کی جا سکتی ہے تو مشاہدِ شرک کو باقی کیوں رکھا جائے؟ جب مسجد ضرار کے ساتھ یہ سلوک ہو تو مشاہدِ شرک جہاں قبروں کے مجاور اور پجاری لوگوں کو بلا کر اللہ کے ہمسر ٹھہراتے ہیں، وہ تو بالاولیٰ اس لائق ہیں کہ انھیں مسمار کیا جائے اور جلا کر ان کو نیست و نابود کر دیا جائے، بلکہ ان کا قلع قمع کرنا واجب تر ہے۔ برائی کے اڈے گرائے جانے کے لائق ہیں: ایسے ہی وہ محلات اور جگہیں جہاں معاصی اور فسق و فجور کا ارتکاب ہوتا ہو، وہ بھی اس لائق ہیں کہ انھیں مسمار کر دیا جائے۔ دیکھو! عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک پوری بستی کو، جہاں شراب بکتی تھی، آگ سے جلا دیا، رویشد ثقفی کی دکان جلا دی اور اس کا نام فویسق رکھا اور سعد رضی اللہ عنہ کا وہ محل جلا دیا جس میں وہ بیٹھتے تھے اور عوام کی ان تک رسائی نہیں ہوتی تھی۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے گھروں کو آگ لگانے کا ارادہ کیا جو لوگ باجماعت نماز اور جمعہ میں شرکت نہیں کرتے،[1] لیکن پھر ان مستورات اور بچوں کے خیال سے جن پر جمعہ اور جماعت واجب نہیں ہے، اس قصد وارادے سے باز رہے۔ اسی طرح وہ درخت جس کے نیچے بیعت رضوان ہوئی تھی، اس بیعت اور درخت کا ذکر قرآن میں آیا ہے، جب لوگوں نے اس درخت کی تعظیم کرنا شروع کر دی اور اسے مبارک سمجھنے لگے تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
Flag Counter