Maktaba Wahhabi

59 - 579
نے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ غور فرمائیں! اگر صحابہ یہ کام نہ کرتے اور شرک کے ذرائع بند کرنے کا اہتمام نہ کرتے تو یقینا آج زمین کے کسی علاقے میں اسلام کا نام بھی نہ سنا جاتا۔ شرک و بدعت پر لوگوں کے اصرار اور جمود کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ امتِ اسلام کے اکثر لوگ شرک و بدعت کو دین و ایمان سمجھنے لگے ہیں اور قرآن و حدیث کے اتباع کو بدعت و ضلالت سمجھ کر موحدین کی جان و آبرو اور ان کے مال اور نام کے جانی دشمن بن گئے ہیں۔ شارع علیہ السلام نے یہ جو فرمایا تھا کہ اسلام غریب شروع ہوا اور غربت کی طرف لوٹ جائے گا تو اس کا مصداق تو سیکڑوں سال سے دنیا میں موجود دکھائی دیتا ہے۔ مسلمان قبروں میں چلے گئے اور مسلمانی صرف کتابوں میں باقی رہ گئی ہے۔ اب کس کی مجال ہے کہ وہ ان شرکیہ افعال کا رد کرے اور پھر اسے کوئی مسلمان سمجھے؟ فإن اللّٰہ وإنا الیہ راجعون۔ قبر پر بنی ہوئی مسجد گرانا اور مسجد میں دفن کیے ہوئے مردے کو اکھاڑنا واجب ہے: ایک بات یہ بھی یاد رکھنے والی ہے کہ کسی ایسی چیز پر کچھ وقف کرنا جو نیکی اور قربتِ الٰہی کا ذریعہ نہ ہو، جائز اور درست نہیں ہے، مثلاً اس مسجد پر کچھ مال وقف کرنا درست نہیں ہے جو مسجد قبر پر یا قبر کے پاس بنی ہو، بلکہ اس مسجد کو گرانا واجب ہے۔ مسجد اور قبر اکٹھے نہیں ہو سکتے: اسی طرح اگر مسجد کے اندر کوئی مردہ دفن ہو تو اسے کھود کر نکال ڈالا جائے۔ امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ نے اس کی صراحت کی ہے۔ دینِ اسلام میں قبر اور مسجد کو جمع کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ جو چیز ان میں سے بعد میں بنائی جائے، اسے مٹا دیا جائے اور ختم کر دیا جائے اور جو چیز پہلے کی بنی ہوئی ہے، اس کو باقی رکھا جائے۔ دونوں چیزیں اکٹھی بنائی جائیں تو یہ قطعاً جائز نہیں ہے اور نہ ایسی جگہ وقف کرنی درست ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی مسجد میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور جو شخص قبر کو مسجد اور عبادت گاہ بنائے اس پر لعنت فرمائی ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کے پاس مجاورت اختیار کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ میں کہتا ہوں: یہ مجاورت عرس وغیرہ کے دیگر اجتماعات کو بھی شامل و عام ہے۔ یہ ہے وہ دینِ اسلام جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اور اسے لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ انتھیٰ۔ [1]
Flag Counter