Maktaba Wahhabi

592 - 579
دروازے ہیں جو جاہ و منزلت اور شہرت طلب کرنے پر انگیخت کرتے ہیں، تاکہ لوگ اس کی ثنا کریں اور اسے ہر طرف سے مال و دولت حاصل ہو۔ ریا کو شرک اصغر کہنے کا سبب: اگر ریاکار کی مراد صرف ریا کاری ہے تو اس کی ساری عبادت باطل ہوئی۔ کاش! اتنی ہی برائی اسے حاصل ہوتی۔ مشکل تو یہ ہے کہ اس پر گناہِ عظیم اور ذمِ قبیح ثابت ہوتا ہے۔ ریا کاری کے حرام، کبیرہ گناہ اور شرک ہونے کی یہی وجہ ہے کہ اس میں حق تعالیٰ کے ساتھ استہزا پایا جاتا ہے، لہٰذا ریاکار لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ ریاکاری ہلاک کرنے والے گناہوں میں سے بڑا گناہ ہے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ’’شرکِ اصغر‘‘ رکھا ہے۔ ریا کاری میں مخلوق پر تلبیس بھی ہوتی ہے، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص واطاعت کا ایہام ہوتا ہے، حالانکہ وہ ریا کار مخلص مطیع نہیں ہے۔ دنیا میں بھی تلبیس کرنا حرام ہے، چہ جائے کہ دین کی تلبیس کی جائے۔ ہاں کبھی ریا کا اطلاق امر مباح پر بھی ہوتا ہے، جیسے عبادت کے بغیر جاہ و توقیر طلب کرنا یا جیسے اچھا اور پاکیزہ لباس پہننا تا کہ لوگ نظافت وجمالت کی بابت اس کی تعریف کریں۔ اسی طرح ہر تجمل و تزین کا حکم ہے، جیسے اغنیا پر خرچ کرنا عبادت کے طور پر نہیں، بلکہ اس لیے کہ لوگ اسے سخی کہیں۔ پس یہ نوع حرام نہیں ہے، کیوں کہ اس میں تلبیس اور استہزا نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر آتے تو آئینہ دیکھ کر عمامہ، بال اور چہرہ درست فرما کر آتے۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں عبادت تھی، تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی نظروں سے نہ گریں اور مخلوق کے دلوں کو حق کی طرف مائل کریں۔ یہ حکم علما وغیرہ کے حق میں بھی درست ہے، جب تحسینِ ہیت سے ان کا مقصود محض یہی امور ہوں۔ جب ریا کار ریا کاری اور عبادت دونوں کا قصد کرے: جس شخص کا اپنے عمل سے ریاکاری اور عبادت دونوں ہی مقصود ہیں۔ اس کے بارے میں امام غزالی اور ابن عبدالسلام رحمہما اللہ کا اختلاف ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اگر باعثِ دنیا غالب ہے تو اسے کوئی ثواب نہ ملے گا اور اگر باعثِ آخرت غالب ہے تو ثواب ملے گا اور اگر دونوں باعث برابر ہیں تو دونوں ساقط ہیں، اسے کچھ ثواب نہ ہوا۔ ابن عبدالسلام رحمہ اللہ نے کہا کہ مطلقاً کچھ ثواب نہ ہو گا، ان کی دلیل اس طرح کی احادیث ہیں:
Flag Counter