Maktaba Wahhabi

60 - 579
مے خانوں کی نسبت بت خانے گرانا زیادہ بہتر ہے: امام احمد رحمہ اللہ نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے: ’’یہی حکم ان جگہوں کا ہے جن کو اہلِ شرک نے بت خانے بنا رکھا ہے، انھیں منہدم کرنا، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی زیادہ محبوب و مرغوب ہے۔ ان جگہوں کو مسمار کرنا اسلام اور مسلمانوں کے لیے مے خانوں اور برائی کے اڈوں کو گرانے کی نسبت بہت زیادہ نفع مند ہے۔ یہ مشاہد ومزار جو قبروں پر بنائے گئے ہیں اور اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کی جاتی ہے اور قبروں والوں کے ساتھ طرح طرح کا شرک کیا جاتا ہے، ان مشاہد و مزارات کا باقی رکھنا اسلام میں حلال نہیں ہے، بلکہ ان کا گرانا اور مسمار کرنا واجب ہے اور ان کو وقف کرنا اور ان پر کچھ وقف کرنا درست نہیں ہے۔ مزارات کے لیے وقف شدہ اموال کے مصارف: امامِ وقت کو چاہیے کہ وہ مشاہد اور مزارات کو ختم کرے اور ان کے لیے وقف شدہ اموال لشکرِ اسلام اور مسلمانوں کے مصالح میں خرچ کرے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بت خانوں کے اندر موجود آلات، سازوسامان اور نذرانوں کے اموال کو، جو ان تحائف سے مشابہت رکھتے ہیں جو امام کے گھر میں آتے ہیں، مسلمانوں کے مصالح اور ان کی ضروریات پر خرچ کر دیتے تھے۔ چنانچہ بت خانوں اور مے خانوں میں جمع شدہ وہ سارا مال دینِ اسلام کے مصالح پر خرچ ہوا۔[1] بت خانوں اور مشاہد و قبور میں مماثلت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بت خانوں کو گرایا اور ان کے اموال اسلام کے لیے خرچ کیے، ان بت خانوں کے پاس وہی کام ہوتے تھے، جو اب مشاہد اور قبور کے پاس ہوتے ہیں۔ ان دونوں میںکچھ فرق نہیں ہے۔ یہی نذر و نیاز، انھیں بہ قصدِ تبرک چھونا، ان کو چومنا اور استلام کرنا، وہاں بھی تھا اور یہاں بھی یہی ہوتا ہے۔ دورِ حاضر اور زمانۂ جاہلیت کے مشرک ایک جیسے شرک میں مبتلا تھے: زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا شرک اسی نوعیت کا تھا جو آج کے مشرکوںمیں موجود ہے۔ دورِ جاہلیت کے لوگ اس بات کے معتقد نہیں تھے کہ ہمارے معبود زمین و آسمان کے خالق ہیں، بلکہ اُن کا شرک بعینہ انھیں اربابِ مشاہد و قبور کے شرک کی طرح تھا۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اس دور کے جاہل اور
Flag Counter