Maktaba Wahhabi

96 - 579
سب سے پہلے آدم علیہ السلام ہیں اور سب سے آخری محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ انبیا میں سے پانچ نبی اولو العزم ہیں اور وہ ہیں: نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسی اور محمد علیہم السلام ۔ انبیا پر ایمان لانے میں ان کی تعداد کا لحاظ نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ مِنْھُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَمِنْھُمْ مَنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ﴾[الغافر: ۷۸] [ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کا حال ہم نے تجھے سنایا اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کا حال ہم نے تجھے نہیں سنایا] رہی وہ روایت جس میں انبیاعلیہم السلام کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار بیان کی گئی ہے تو وہ ضعیف ہے۔[1] کراماتِ اولیا: کراماتِ اولیا حق ہیں۔ اولیا ان مومنوں کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کی شناخت رکھتے ہیں اور وہ اپنے ایمان میں محسن یعنی مخلص ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے، کرامات سے اس کی عزت افزائی کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے، اپنی رحمت کے ساتھ خاص کرتا ہے۔ ولی کی کرامت دراصل نبی کا معجزہ ہے جو اس کے ہاتھ پر صادر فرمایا گیا ہے۔ ولی وہی ہوتا ہے جو اپنی دیانت داری میں سچا ہو، اور دیانت یہ ہے کہ وہ زبان و دل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرے اور اوامر و نواہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطیع اور سنتوں کا متبع ہو۔ اگر وہ اپنے نفس کے لیے حق خود اختیاریت کا دعویٰ کر کے متبع نہیں بنے گا تو وہ ولی نہیں ہے اور اگر ولی ہے تو شیطان کا ولی ہے، رحمان کا ولی نہیں ہے اور اس کی کرامت استدراج، مکروفریب اور شعبدہ بازی ہے۔ ولی کے اوصاف: اولیا مباح امور میں سے کسی بات میں دوسرے لوگوں سے ممتاز نہیں ہوتے ہیں، لباس میں نہ طعام میں، نہ سواری میں نہ مکان میں، نہ حرفہ میں نہ صنعت میں، بلکہ یہ ساری اصناف امتِ اسلام میں پائی جاتی ہیں، بشرطیکہ وہ اولیا مبینہ طور پر واضح بدعات کو اختیار کرنے والے اور فاسق و فاجر نہ ہوں۔ ولایت اہلِ قرآن، اہلِ علم، اہلِ جہاد، اہلِ تلوار اور اہلِ قلم سب میں ہوتی ہے اور اولیا تاجروں، کاریگروں، کسانوں اور سوار وپیادہ سب میں پائے جاتے ہیں۔ سلف صالحین اہلِ دین اور اہلِ علم کو ’’قرائ‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ ان میں علما اور عبادت گزار سب ہی داخل تھے۔ پھر ان کے لیے
Flag Counter