Maktaba Wahhabi

98 - 579
﴿ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ﴾[الزمر: ۹] [ کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے؟] اس لفظ ﴿لاَ یَعْلَمُوْنَ﴾کے عموم میں جاہل عبادت گزار بھی داخل ہیں۔ علم صرف ترجمہ سازی اور حرف شناسی کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک نور ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے دل میں ڈال دیتا ہے، جس سے اس کا سینہ کشادہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہر قاری و مقری عالم نہیں ہوتا، اگرچہ وہ قرآن و حدیث رٹا کر تا ہو۔ مقامِ صحابہ: ہم عشرہ مبشرہ، فاطمہ، خدیجہ، عائشہ، حسن اور حسین] کے جنتی ہونے اور ان کے لیے خیر و بھلائی کی گواہی دیتے ہیں، اس لیے کہ احادیث صحیحہ میں انھیں جنتی قرار دیا گیا ہے۔ نیز ہم دیگر صحابہ کرام اور اہلِ بیتِ عظام کی توقیر و تعظیم کرتے ہیں اور اسلام میں ان کا بہت بڑا مقام جانتے ہیں۔ اسی طرح اہلِ بدر اور اہلِ بیعتِ رضوان کو ہم جنتی کہتے ہیں۔ اہلِ بدر تین سو تیرہ آدمی تھے۔ ان کے سوا ہم کسی ولی اللہ کے لیے جنت کی گواہی نہیں دے سکتے ہیں، اگرچہ اس کے حق میں اچھا گمان کرنے والے ایسا کہتے ہیں۔ فضیلتِ صحابہ: اہلِ سنت اس بات کے قائل ہیں کہ افضل صحابہ خلفاے راشدین ہیں، پھر باقی عشرہ مبشرہ، پھر اہلِ بدر، پھر باقی اہلِ احد، پھر اہلِ بیعت رضوان اور پھر باقی صحابہ کرام] ۔ غرض کہ انصار و مہاجرین رضی اللہ عنہم میں سے سابقین اولین دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں۔ رہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اولاد تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد اگر کسی کو کوئی فضیلت حاصل ہے تو وہ صرف اس کے علم اور تقوے کے ساتھ ہے۔ اس بارے میں صحیح موقف یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیٹوں کی فضیلت ان کے باپوں کی ترتیب وار فضیلت کے ساتھ ہے سوائے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد کے، کیونکہ ان کی اولاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب کے سبب خلفا کی اولاد پر فضیلت رکھتی ہیں۔ (وہ یہ فضیلت کیوں نہ رکھیں) آخر کار وہ پاک کنبہ اور پاکیزہ اولاد ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ متبع سنت ہوں اور بدعتی نہ ہوں، ورنہ وہ اس آیت کے مصداق ہوں گے:
Flag Counter