Maktaba Wahhabi

52 - 122
میں حضرت ہارون ؑبچھڑے کے پجاریوں سے اپنی اتباع کا مطالبہ کر رہے ہیں اور کلام کا سیاق و سباق مثلاً﴿وَاَطِیْعُوْا اَمْرِیْ﴾کے الفاظ بتلا رہے ہیں کہ یہاں حضرت ہارون ؑ کی اپنی اتباع سے مراد صرف یہ ہے کہ شرک چھوڑ دو‘ چاہے اس کو چھوڑنے کے لیے تمہارے دل آمادہ ہیں یانہیں۔چوتھی آیت میں شیطان کی اتباع کی بات ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ شیطان کی اتباع محبت کے ساتھ ہوتی ہو۔تیسری بات یہ ہے کہ جب اہل لغت نے اتباع کے معنی میں محبت کو لازماً شامل نہیں کیاہے تو اس بات کی کوئی شرعی دلیل ہونی چاہیے کہ اتباع کے معنی میں محبت کا مفہوم بھی شامل ہے تاکہ یہ دعویٰ ممکن ہو کہ اتباع کا ایک لغوی مفہوم ہے اور ایک شرعی معنی ہے۔قرآن میں اتباع کامطالبہ مسلمانوں اور کفار دونوں سے ہے۔کفار کے لیے اس کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے باپ کو﴿فَاتَّبِعْنِیْ اَھْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا.﴾(مریم)کے ذریعے اپنی اتباع کا حکم دینا ہے۔ اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ﴾(آل عمران:۳۱)میں اصلاً خطاب ان مشرکین اور اہل کتاب سے ہے جو کہ اللہ سے محبت کے دعویدار تھے یا اب بھی ہیں۔ان کفار کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور اس اتباع سے مراد آپؐ پر ایمان لانے کے مطالبے میں آپؐ کی بات کی پیروی کرنا ہے۔تبعاً اس آیت کے عمومی مفہوم میں تمام مسلمانوں سے بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا مطالبہ ہے اور اس اتباع سے مراد آپؐ کے ان اقوال و افعال اور تقریر و تصویب کی پیروی کرنا ہے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بطورِ دین و شریعت صادر ہوئے ہوں نہ کہ آپؐ کے ہر ہر قول اور فعل کی پیروی کرنا‘ کیونکہ صحابہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ہر قول اور فعل کی پیروی نہیں کی ہے۔ افعالِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی درجہ بندی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو اہل علم نے مختلف اقسام میں تقسیم کیا ہے‘ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: (۱)جبلی اور اتفاقی امور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی اور اتفاقی امور اُمت کے لیے نہ تو شریعت ہیں اور نہ ہی ایسی سنت ہیں جن کی اتباع باعث ثواب ہے۔جبلی امور سے مراد وہ کام ہیں جو ایک انسان اپنے جبلی تقاضوں کے تحت سر انجام دیتا ہے ‘مثلاً ایک انسان کھانا کھاتا ہے ‘ پانی پیتا ہے ‘ سوتا ہے ‘ اٹھتا ہے ‘ بیٹھتا ہے ‘ پیشاب پاخانہ کرتا ہے ‘ لباس پہنتا ہے ‘جوتا پہنتا ہے ‘اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔یہ تمام امور ایسے ہیں کہ ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ‘یعنی اگر کوئی شخص مسلمان نہ بھی ہو تو پھر بھی وہ اپنی جبلت کے تقاضوں کے تحت یہ سب کام کرتا ہے۔اس کے برعکس ایک مسلمان نماز پڑھتا ہے ‘ روزہ رکھتا ہے ‘ حج ادا کرتا ہے‘ زکوٰۃ دیتا ہے ‘وغیرہ تو یہ افعال جبلی نہیں ہیں ‘کیونکہ عام انسان یہ کام نہیں کرتے۔
Flag Counter