Maktaba Wahhabi

333 - 373
(ج): اس کے علاوہ کچھ ایسی نصوص ہیں جن سے مزید بات کھلتی ہے ان میں جماعت مسلمین اور ان کے امام سے(اگر وہ ہوں تو)لزوم کا حکم دیا گیا ہے، وگرنہ تمام فرقوں سے اعتزال کا حکم ہے، اس بات پر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ والی حدیث دلالت کرتی ہے جو بہت سے طریقوں اور روایات سے وارد ہوئی ہے۔ اب ان نصوص یہ واضح ہوتا ہے کہ فرقۂ ناجیہ(یا اہل سنت)کو مختلف حالات درپیش ہو سکتے ہیں۔ پہلی صورت پہلی صورت یہ ہے کہ امام ’’شرعی‘‘ موجود ہو اور یہ امام اہل سنت کا امام ہو، انہی کے مذہب کا متبع و ملتزم بھی ہو اور داعی بھی، اس مذہب کے ہر مخالف کو ڈرا کے رکھنے والا اور اھواء و بدعات کے حاملین سے برسر پیکار رہتا ہو۔ ایسے امام کی مثال خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے دی جا سکتی ہے چنانچہ ان کے عہد میں جماعت کے مذکورہ بالا دونوں معانی یکجا و مجتمع تھے، جماعت کے یہ وہ معانی ہیں جنہیں ہم نے راجح قرار دیا ہے یعنی ایک وہ جماعت جو ایک امام پر مجتمع ہو اور دوسری وہ جماعت جو اہل سنت و الجماعت ہے۔ ظاہر ہے یہ اعلیٰ ترین صورت ہے اور اس زمانے کا ہر مسلمان اس حالت کے ظہور کی تمنا و آرزو رکھے ہوئے ہے۔ اس حالت میں مسلمان پر فرض ہوتا ہے کہ وہ جماعت کی اتباع کرے، بشمول امیر اس کا التزام کرے اور اس کی دعوت سے چمٹا رہے۔ دوسری صورت دوسری صورت یہ ہے کہ امام موجود تو ہو مگر یہ امام بدعتی ہو اور اہل سنت و الجماعت کے مذہب کے التزام نہ کرتا ہو، بلکہ اس کے دل میں ایک گونہ اہل بدعات کا مذہب جا گزیں
Flag Counter