صدقہ فطر کے لیے نصاب شرط نہیں بلکہ ہر وہ مسلمان جس کے پاس اپنے لیے اور اپنے بال بچوں کے لیے ایک دن اور ایک رات کی خوراک سے زائد غلہ ہواسے اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے جن میں اس کے بچے بیویاں اور زر خرید غلام اور لونڈی شامل ہیں صدقہ فطر نکالنا ہو گا۔ وہ غلام جسے اجرت،تنخواہ پر رکھا گیا ہو وہ اپنے صدقہ فطر کا خود ذمہ دار ہے الایہ کہ مالک بطور احسان اپنی طرف سے ادا کردے یا غلام نے مالک پر صدقہ فطر کی شرط لگا رکھی ہو لیکن زر خرید غلام کا صدقہ فطر تو جیسا کہ حدیث میں مذکورہوا مالک کے ذمہ ہے۔ صدقہ فطر کا علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق شہر کی خوراک کی جنس سے نکالنا ضروری ہےخواہ وہ کھجور ہو یا جو ہو یا گیہوں ہو یا مکئی ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور غلہ ہو۔اور اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کسی خاص قسم کے غلے کی شرط نہیں رکھی ہے اور اس لیے بھی کہ اس سے غرباء و مساکین کے ساتھ ہمدردی مقصود ہوتی ہے اور غیرخوراک سے کسی کے ساتھ ہمدردی کرنا مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ سوال نمبر20: بوسنیا اور ہرزگونیا وغیرہ کے مسلم مجاہدین کو صدقہ فطر دینا کیسا ہے؟ اور اگر فتوی جواز کا ہے تو پھر اس سلسلے میں افضل کیا ہے؟ جواب: مشروع یہ ہے کہ صدقہ فطر نکالنے والا جس شہر میں مقیم ہے صدقہ فطر وہیں کے |