Maktaba Wahhabi

31 - 336
مال و مطاع کی کثرت ان کامطمح نظر تھا ، اسی کے لیے وہ تگ ودوکرتے تھے اور چاہتے تھے کہ مال و دولت اور خدم وحشم کی کثرت ہو تاکہ ظاہری طور پر دوسروں کومرعوب کرسکیں، لیکن اسلام کی تعلیمات پرعمل کاان میں کوئی جذبہ نہ تھا۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کادور: ایک مقام پر شیخ حامد الفقی نے لکھاہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے عہد میں یونانی ، ہندی اور ایرانی فلسفہ کے بادل چھائے ہوئے تھے ، تقلیدوہواپرستی کایہ حال تھاکہ علما ء مشائخ کو ربوبیت کا مقام حاصل تھا ، حکام ظلم وجورکے عادی تھے ، اوہام وخرافات اور شرک وبدعات کاہرطرف غلبہ تھا ، اور صوفیاء کے غیرشرعی طریقوں سے لوگ مانوس تھے ، اور ان تمام خرابیوں کی اصل وجہ یہ تھی کہ مسلمان کتاب وسنت سے بیگانہ تھے۔ علماء خوب اچھی طرح یہ بات معلوم تھی کہ اسلام کاتقاضاکیاہے ، لیکن مفاد پرستی اور لذت کوشی کا ایسا غلبہ تھاکہ وہ اسلام کی صحیح ترجمانی سے قاصرتھے ، قرآن وحدیث کوتبرک وتلاوت تک محدود کردیاتھا ، اس کی آیات میں لوگ کوئی پیغام عمل نہیں دیکھ پاتے تھے ، اسی طرح کائنات میں اﷲ تعالیٰ کی قدرت وحکمت اور جلال وجبروت کے مظاہربھی ان کی آنکھوں سے اوجھل تھے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے توحیدربوبیت اور توحیدالوہیت میں پختگی کے لیے ان کے سامنے غوروفکر کی دعوت پیش کی ، یعنی کتاب وسنت میں غورفکرکے ساتھ کائنات پربھی غورکریں اور دیکھیں کہ شرک کی تردیدکے عقلی ونقلی دلائل کتنی کثرت سے موجودہیں۔ [1] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے پوری عمرحوادث ومصائب کا انتہائی عزیمت وہمت اور دلیری سے مقابلہ کیا ، زہدوتقویٰ کاعالم یہ تھاکہ فجرکی نمازکے بعدتقریبانصف دن تک ذکر و فکرمیں مشغول رہتے ، اور فرماتے کہ’’ یہ میراصبح کاناشتہ ہے ، یہ نہ ہوتومیری قوت زائل ہونی شروع ہوجاتی ہے۔‘‘ اور اس کے بعدکبھی افتاء کاکام کرتے اور پھرخدمت خلق کے کاموں میں مصروف ہوجاتے۔ ظہرکی نمازباجماعت پڑھ کر اسی قسم کے امورمیں مصروف رہتے ،
Flag Counter