Maktaba Wahhabi

32 - 336
نماز مغرب کے بعدطلبہ کودرس دیتے ، پھرعشاء کے بعدکافی رات گئے تک علمی کاموں میں منہمک رہتے ، تاہم تصنیف میں سرعت کایہ حال تھاکہ بسااوقات ایک دن میں پوری جلد لکھ ڈالتے تھے ، ’’ رسالۃ الحمویۃ‘‘ ظہروعصرکے مابین ایک ہی نشست میں لکھ دیاتھا۔ [1] بیماری ، وفات اور جنازہ: ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے توقیدوبندکی مصیبتیں بارہاجھیلیں۔ وفات کے آخری ایام بھی قیدہی میں گزارے اور قیدہی میں وفات پائی ، زندگی کے آخری پانچ ماہ قید میں رہے ، جن میں بیس دن کے قریب مرض الموت کے تھے۔ امام صاحب کے بھائی زین الدین عبدالرحمن کاکہناہے کہ پانچ ماہ کی مدت میں ہم دونوں نے (۸۰)قرآن مجید (بطوردور) ختم کئے ، تین پارے روزانہ کامعمول تھا ، ۸۱ ویں مرتبہ شروع کرکے سورۃ القمر (وَكُلُّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُسْتَطَرٌ‎‎(53) إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَهَرٍ) (القمر:۵۳۔ ۵۴) پرپہنچے تھے کہ راہی بہ آخرت ہو گئے ، کم وبیش بیس دن بیماررہ کر ۲۰؍ذوالقعدۃ ۷۲۸ھ سوموارکی رات سحری کے وقت انتقا ل ہوا ، اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔ اس ناگہانی خبر سے کہرام مچ گیا ، سارے شہرمیں صف ماتم بچھ گئی ، بازاربندہوگئے ، ہوٹلوں میں کھاناتک اس دن نہیں پکا ، مدرسوں میں عام چھٹی ہوگئی ، مضافات شہرسے کثیر تعداد میں لوگ قلعہ کے پاس جمع ہوگئے ، علماء ، وزراء ، عوام واقارب کا امنڈتاسیلاب جنازہ میں شریک ہوا۔ جنازہ پرتقریبادولاکھ حاضری کا اندازہ کیاگیا ، پندرہ ہزارعورتوں کاتخمینہ اس کے علاوہ ہے۔ دمشق کی تاریخ میں اس قسم کے جنازہ کی مثال نہیں ملتی ، بلکہ امام احمدبن حنبل کے بعدکسی جنازہ پر اتنی حاضری کبھی نہیں ہوئی ، (امام احمدبن حنبل کے جنازہ میں شرکاء کی تعدادس لاکھ کے قریب تھی ، اور اس صدی میں علامہ شیخ ابن بازکے جنازہ میں بھی دس سے پندرہ لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ ) دفن کے بعد بھی اطراف واکناف کے لوگ قبرپرآکر نماز جنازہ پڑھتے رہے ، سارے
Flag Counter