Maktaba Wahhabi

330 - 336
دوسرا باب: اہل تصوف سے کس طرح بحث کی جائے؟ پچھلے باب میں ہم صوفیانہ افکار کی خطرناکیوں کا ذکر کر چکے ہیں۔ اب جو شخص بھی ان باتوں سے واقف ہو جائے اس پر ضروری ہے کہ اسلامی سماج سے اس خبیث درخت کی جڑ اُکھاڑنے کی کوشش کرے۔ لیکن یہ کام نہیں ہو سکتا جب تک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف دعوتِ برحق نہ دی جائے۔ ہدایت و پاکیزگی کے پردے میں ہر قسم کے کفر و زندقہ کو چھپانے والے اس قابل نفرت تصوف کو سر عام رسوا نہ کیا جائے۔ا س لیے ضروری ہے کہ جس شخص کو حق معلوم ہو جائے وہ اسے پھیلانے اور عام کرنے کی کوشش کرے اور اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ جس شخص کو اس شر کا علم ہو جائے وہ اس کے درخت کو جڑ سے اُکھاڑنے کی کوشش کرے۔ چونکہ بیشتر طالب علم تصوف کی حقیقت کو نہیں جانتے اور اس کی کفریات ، اکاذیب ، اباطیل اور لاف و گزاف سے واقفیت نہیں رکھتے اس لیے صوفیوں سے بحث کرتے ہوئے بہترین جو اب نہیں دے پاتے اور نہ انہیں حق پر قانع کر پاتے ہیں۔ کیونکہ صوفی جب ایسے آدمی کو دیکھتا ہے جو کتاب و سنت اوردلیل کی عظمت کا قائل ہو تو جھٹ کہتا ہے کہ جنید نے جو شیخ الطائفہ تھے فرمایا ہے کہ ہمارا طریقہ کتاب و سنت کا پابند ہے۔ جو کتاب و سنت کو نہ سمجھے وہ اس گروہ کے طریقے کو بھی نہیں سمجھ سکتا۔فلاں نے یہ کہاہے اور فلاں نے وہ کہا ہے۔ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ میرے دل میں اس گروہ کا کوئی نکتہ جا گزیں ہوتا تو میں اسے بیان نہیں کرتا جب تک میں اس کے لیے کتاب و سنت سے دو شاہد نہ پاجاؤں۔ یہ باتیں سن کر صوفیوں کی راہیں نہ جاننے والا طالب علم سمجھتا ہے کہ یہ لوگ دین کے ماہر ہیں اور ورع و اخلاص کے ایسے مقام پر فائز ہیں کہ کوئی بات اس وقت تک نہیں بولتے
Flag Counter