Maktaba Wahhabi

128 - 440
ابن قیم رحمہ اللہ کا قول: ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فَلَہُمْ عِبَارَاتٌ عَلَیْہَا أَرْبَعٌ قَدْ حُصِلَتْ لِلْفَارِسِ الطَّعَّانِ وَہِيَ اسْتَقَرَّ وَقَدْ عَلَا وَکَذٰلِکَ اَرْ تَفَعَ الَّذِيْ مَا فِیْہِ مِنْ نُکْرَانِٖ وَکَذَاکَ قَدْ صَعِدَ الَّذِيْ ہُوْ رَابِعٌ وَأَبُوْ عُـبَـیْـدَۃَ صَـاحِـبُ الشَّیْـبَـانِيْ یَخْتَارُ ہٰذَا الْقَوْلَ فِيْ تَفْسِیْرِہٖ أَدْرٰی مِنَ الْجَھْمِيِّ بِالْقُرْآنِ۔ ’’اس مسئلہ میں ان (اسلاف) کی کئی عبارتیں ہیں۔ ان میں سے چار فارس الطعان نے بیان کی ہیں۔ اور وہ یہ ہیں ’’استقر‘‘، ’’علا‘‘، اسی طرح ’’ارتفع‘‘ جس کے بارے میں کوئی تعجب وانکار نہیں۔ اسی طرح چوتھا معنی ’’صعد‘‘ ہے۔ اور امام محمد بن حسن شیبانی کے شاگرد ابوعبیدہ نے اپنی تفسیر میں اسی قول کو اختیار کیا ہے جو کہ قرآن کے (معانی وتفسیر کے) متعلق جہمی (صفات باری تعالیٰ سے متعلق ایک گمراہ فرقے کا قائد) سے زیادہ علم دروایت رکھتے ہیں۔‘‘ سلف نے ’’استواء علی العرش‘‘ کی یہی تفسیریں کی ہیں لیکن گمراہ لوگ استواء کی تفسیر ’’استیلاء‘‘ کے ساتھ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’استوی علی العرش‘‘ کا معنی ہے ’’استولیٰ علیہ‘‘ (اس نے اس پر قبضہ کرلیا)۔ یہ تفسیر نہ تو عربوں میں معروف ہے اور نہ ہی لغت میں اس کی کوئی دلیل ہے، سوائے ایک شعر کے جسے انہوں نے اخطل کی طرف منسوب کیا ہے۔ وہ کہتا ہے: قَدِ اسْتَوَی بِشْرٌ عَلَی الْعِرَاقِ مِنْ غَیْرِ سَیْفٍ وَلَا دَمٍ مُھْرَاقِ ’’بشر نے عراق پر بغیر کسی تلوار کے اور خون بہانے کے قبضہ کرلیا۔‘‘ لیکن اخطل تو عیسائی تھا۔ اس کے کلام سے دلیل اس لیے نہیں پکڑی جاسکتی کہ عیسائی ونصرانی تو خود گمراہ ہیں۔ علاوہ ازیں یہ شعر اخطل سے ثابت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ اس کے مشہور دیوان میں نہیں ہے۔
Flag Counter