Maktaba Wahhabi

151 - 440
نہیں کیا جاسکتا۔ اور جو بھی کلام کرتا ہے وہ مخلوق ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے کلام کو پیدا فرمایا ہے۔ وہ یا تو جبریل ہیں یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور یہ (قرآن کریم) ان کا کلام ہے۔ یہی معتزلہ کا مذہب ہے گویا معتزلہ اور جہمیہ کا مذہب برابر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کلام کی نفی کرتے اور کہتے ہیں کہ اللہ کا کلام مخلوق ہے۔ اشاعرہ: انہوں نے باہم مخالف دونوں مذاہب کو جمع کرنا چاہا۔ چنانچہ انہوں نے کہا: ’’اللہ تعالیٰ صرف نفسی کلام کے ساتھ متصف ہے۔‘‘ یعنی اس کا کلام صرف اس کے دل میں ہوتا ہے اور وہ کسی حرف یا آواز کے ساتھ کلام نہیں کرتا کہ جسے سنا جاسکے۔ بلکہ یہ تو اللہ کے دل کا کلام ہے جسے جبریل علیہ السلام یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لفظوں میں بیان کردیا ہے۔ لہٰذا اشاعرہ کے نزدیک قرآن کریم اللہ کا ایسا کلام ہے جسے جبریل علیہ السلام یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے مقصود کو اپنے لفظوں میں بیان کردیا۔ الغرض قرآن کے معانی اللہ کی طرف سے ہیں جبکہ اس کے الفاظ مخلوق کی طرف سے ہیں۔ یوں انہوں نے دو متناقض باتوں کو جمع کردیا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک قرآن مخلوق بھی ہے اور غیر مخلوق بھی۔ یہ الفاظ وحروف کے اعتبار سے تو مخلوق ہے لیکن معنی کے اعتبار سے مخلوق نہیں۔ لیکن یہ مؤقف باطل اور متناقض ہے۔ اہل سنت والجماعت کا مؤقف: اہل سنت والجماعت سلفی اہل حق کا مؤقف یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں اللہ کا کلام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حقیقی طور پر ان کو بولا، جبریل نے ان کو سنا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچایا۔ نہ تو معانی کے بغیر محض الفاظ کلام اللہ ہیں اور نہ ہی الفاظ کے بغیر محض معانی اللہ کا کلام ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے بغیر واسطے کے کلام کیا اور انہوں نے کلام اللہ کو سنا۔ اسی لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خاص طور پر کلیم اللہ کہا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter