Maktaba Wahhabi

153 - 440
سنا۔ جبریل علیہ السلام ، دیگر فرشتوں اور رسولوں نے بھی، جن کو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی، اس کا کلام سنا۔ تشریح…: (۱)… بکلام قدیم: یعنی اس کا کلام نوع کے اعتبار سے قدیم اور انفرادی طور پر حادث ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کو مطلقاً قدیم نہیں کہا جائے گا بلکہ یوں کہا جائے گا کہ جنس کلام اللہ تعالیٰ کی قدیم صفت ہے۔ لیکن اس کی انواع اسی وقت پیدا ہوتی ہیں جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ (۲)… اللہ تعالیٰ کے کلام کو اس کی مخلوق میں سے وہی سنتا ہے جسے اللہ تعالیٰ سنانا چاہتا ہے، مثلاً جبریل علیہ السلام اسے سن کر انبیاء کرام تک پہنچاتے تھے اور موسیٰ علیہ السلام نے بھی اللہ تعالیٰ کا کلام سنا تھا۔ (۳)… اس میں کوئی شک نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے پروردگار کے کلام کو اس طرح سنا تھا کہ ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی واسطہ نہیں تھا۔ اسی لیے جناب موسیٰ علیہ السلام کو اپنے تمام انبیاء بھائیوں میں سے ’’کلیم اللہ‘‘ کا لقب خاص عنایت کیا گیا۔ (۴)… ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کو یہ خصوصیت بخشی کہ انہیں اپنا کلام سناتے ہیں اور ان سے پھر تمام آسمان والوں کو سناتے ہیں۔ جب وہ کلام الٰہی کو سنتے ہیں تو (مارے ہیبت کے) بے ہوش ہوکر گر پڑتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت نواس بن سمعان وغیرہ رضی اللہ عنہم کی حدیث میں وارد ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ((إِذَا تَکَلَّمَ اللّٰہُ بِاْلَوْحِي اَخَذَتِ السَّمٰوَاتُ مِنْہُ رَجْفَۃً أَوْ رَعْدَۃً شَدِیْدَۃً، فَإِذَا سَمِعَہَا أَہْلُ السَّمَائِ صَعِقُوْا، وَخَرُّوْا لِلّٰہِ سُجَّدًّا۔)) ’’جب اللہ عزوجل اپنے کلام کے ذریعے وحی فرماتے ہیں تو آسمانوں پر اس کی (ہیبت کی) وجہ سے کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ جب اہل آسمان اسے سنتے ہیں تو
Flag Counter