Maktaba Wahhabi

160 - 440
﴿فَلَمَّآ اَتٰہَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِیِٔ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَۃِ الْمُبٰرَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ اَنْ یّٰمُوْسٰٓی اِنِّیْٓ اَنَا اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ، وَ اَنْ اَلْقِ عَصَاکَ ط فَلَمَّا رَاٰہَا تَہْتَزُّ کَاَنَّہَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّ لَمْ یُعَقِّبْ ط یٰمُوْسٰٓی اَقْبِلْ وَ لَا تَخَفْ اِنَّکَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ،﴾ (القصص:۳۰تا۳۱) ’’چنانچہ جب وہ اس کے پاس آیا تو اسے اس بابرکت قطعہ میں وادی کے دائیں کنارے سے ایک درخت سے آواز دی گئی: اے موسیٰ! بلاشبہ میں ہی اللہ ہوں، جو سارے جہانوں کا رب ہے۔ اور یہ کہ اپنی لاٹھی پھینک۔ جب اس نے اسے دیکھا کہ حرکت کر رہی ہے، جیسے وہ ایک سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کرچل دیا اور پیچھے نہیں مڑا۔ اے موسیٰ! آگے آ اور خوف نہ کر، یقینا تو امن والوں سے ہے۔‘‘ یہ آیات اس مسئلہ میں صریح ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بلاواسطہ کلام کیا تھا اور موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو حقیقی طور پر سنا تھا نہ کہ مجازی طور پر۔ اور ان میں اس بارے میں کوئی پیچیدگی نہیں کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ کا تھا اور حقیقی کلام۔ یہ کلام الفاظ اور آواز کا مجموعہ تھا اور موسیٰ علیہ السلام نے اسے سنا تھا۔ گمراہ لوگوں کا عقیدہ: گمراہ لوگ کہتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے درخت میں صفت کلام پیدا کردی تھی اور درخت بول رہا تھا۔ سوال یہ ہے؛ کیا درخت یہ کہہ رہا تھا: اے موسیٰ! میں تیرا رب ہوں تو جوتے اتار دے۔ کیونکہ تو مقدس وادی طوی میں ہے اور میں نے تجھے پسند کیا ہے؟ کیا درخت یہ کہہ رہا تھا: ’’میں نے تجھے چن لیا ہے لہٰذا جو تیری طرف وحی کی جارہی ہے اسے غور سے سن، میں اللہ تعالیٰ ہوں؟ کیا درخت یہ کہہ رہا تھا ’’میں اللہ ہوں، میرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں لہٰذا تم میری ہی عبادت کرو اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو؟
Flag Counter