فصل چہارم: آخرت میں دیدارِ الٰہی کا اثبات کلام اللہ یعنی قرآن مجید پر گفتگو کرنے کے بعد مؤلف رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کی ایک اور عظم صفت کے بارے میں گفتگو شروع کررہے ہیں۔ اور وہ ہے مومنین کا روز قیامت دیدار الٰہی سے مشرف ہونا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات تواتر کے ساتھ منقول ہے اور قرآن کریم بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ، اِِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ،﴾ (القیامہ:۲۲تا۲۳) ’’اس دن کئی چہرے ترو تازہ ہوں گے۔ اپنے رب کی طرف دیکھنے والے۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں پہلا ’’نَاضِرَۃٌ‘‘ ضاد کے ساتھ ہے۔ یہ ’’نضرۃ‘‘ سے ماخوذ ہے۔ جس کا معنی ہے خوشی۔ پس آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ قیامت کے دن اہل ایمان کے چہرے پررونق اور پُرنور ہوں گے۔ دوسرا ’’نَاظِرَۃٌ‘‘ ظا (ظ) کے ساتھ ہے۔ یہ ’’نظر‘‘ سے ماخوذ ہے۔ یہ کبھی ’’إلی‘‘ کے ساتھ متعدی ہوتا ہے۔ اور جب ’’إلی‘‘ کے ساتھ متعدی ہو تو اس کا معنی ’’آنکھوں سے دیکھنا‘‘ ہوتا ہے۔ چنانچہ ’’إلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ خوش رو اہل ایمان قیامت کے دن اپنے رب کو اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھیں گے جس سے ان کے حسن، خوبصورتی اور نورانیت میں اضافہ ہوجائے گا۔ ان کی خوشی اور لطف دو چند ہوجائیں گے۔ اور جب ’’نظر‘‘ کو بذات خود متعدی کیا جائے۔ تو اس کا معنی انتظار کرنا ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ﴿انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِکُمْ﴾ (الحدید:۱۳) ’’ہمارا انتظار کرو کہ ہم تمھاری روشنی سے کچھ روشنی حاصل کر لیں۔ ‘‘ |
Book Name | شرح لمعۃ الاعتقاد دائمی عقیدہ |
Writer | امام ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن محمد ابن قدامہ |
Publisher | مکتبہ الفرقان |
Publish Year | |
Translator | ابو یحیٰی محمد زکریا زاہد |
Volume | |
Number of Pages | 440 |
Introduction |