Maktaba Wahhabi

223 - 440
فصل پنجم: تقدیر پر ایمان لانے کا بیان وَمِنْ صِفَاتِ اللّٰه تَعالَی اَنَّہُ الْفَعّالُ لِمَا یُرِیْدُ، لَا یَکُوْنُ شَیْیٌٔ إِلَّا بِإِرَادَتِہِ۔ ترجمہ…: اللہ تعالیٰ کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ہر کام اس کے ارادہ سے ہوتا ہے۔ تشریح…: (۱) یہاں سے مؤلف رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کی دوسری صفت (قضاء وقدر) کا بیان شروع کر رہے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر اس چیز کا فیصلہ کردیا ہے جو ازل سے لے کر ابد تک اس کائنات میں رونما ہوگی۔ اس کی بادشاہی میں وہ کام نہیں ہوسکتا جو وہ نہ چاہے۔ ہر کام اس کی قضاء و قدر، ارادہ و مشیت اور اس کی تخلیق و ایجاد کے مطابق ہوتا ہے۔ اور قضاء و قدر پر ایمان لانا ایمان کے چھ ارکان میں سے ایک ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلْإِیْمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ، وَمَلَائِکَتِہٖ، وَکُتُبِہٖ، وَرُسُلِہٖ، وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ۔)) [1] ’’ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یوم آخرت اور اچھی و بری تقدیر پر ایمان لائے۔‘‘ ’’تُؤمنَ بِالْقَدرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ‘‘ یہ جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ قضاء و قدر پر ایمان لانا ایمان کے چھ ارکان اور اصول ایمان میں سے ہے۔ لہٰذا جس نے اس کا انکار کیا۔ اس
Flag Counter