Maktaba Wahhabi

240 - 440
الغرض جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انسانی شکل میں آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے اور اسلام کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ تو نماز قائم کرے، زکوٰۃ دے، رمضان کے روزے رکھے اور زادِ راہ کی طاقت ہو تو بیت اللہ کا حج کرے۔ جبریل علیہ السلام نے فرمایا: ’’آپ نے سچ فرمایا ہے۔‘‘ یہ دوسری تعجب خیز بات تھی کہ وہ کیسا سائل تھا جو خود ہی تصدیق بھی کرتا تھا۔ جبکہ عام طور پر سائل لاعلم ہوتا ہے۔ مگر جبریل کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں خود اس کا علم تھا۔ پھر جبریل علیہ السلام نے سوال کیا: ’’مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایمان یہ ہے کہ تو اللہ ربّ العالمین، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یوم آخرت اور اچھی، بری تقدیر پر ایمان لائے۔‘‘ جبریل علیہ السلام نے کہا: ’’آپ نے سچ فرمایا۔‘‘ جبریل علیہ السلام نے اسلام کے بارے میں پوچھا جو کہ ظاہری اعمال کا نام ہے۔ پھر ایمان کے بارے میں سوال کیا جو کہ باطنی اعمال کا نام ہے۔ اسلام اور ایمان دونوں ہی ضروری ہیں۔ چنانچہ دین ظاہری اور باطنی اعمال کا نام ہے۔ دونوں کا ہونا ضروری ہے۔ نہ تو اسلام ایمان کے بغیر کفایت کرتا ہے اور نہ ہی ایمان کا اسلام کے بغیر کوئی فائدہ ہے۔ بلکہ دونوں ہی ضروری ہیں۔ حدیث میں محل شاہد: ’’وَتُؤْمِنُ بِالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہِ‘‘ کے الفاظ ہیں۔ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان بالقدر کو ایمان کے چھ ارکان میں سے ایک رکن شمار کیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو تقدیر پر ایمان نہیں لاتا اس کا ایمان صحیح نہیں۔ کیونکہ اس نے ارکان ایمان میں سے ایک رکن کو کم کردیاہے۔ *****
Flag Counter