Maktaba Wahhabi

263 - 440
نہیں تھا جو اپنے پروردگار کو نہ پہچانتا ہو۔ یہ بدترین قول ہے۔ اس قول کے مطابق ان کے نزدیک روئے زمین پر ایک بھی کافر نہیں۔ دوسرا قول: یہ ہے کہ محض معرفت قلبی کافی نہیں بلکہ ایمان کے لیے تصدیق قلبی بھی ضروری ہے۔ یہ اشاعرہ کا قول ہے۔ یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ دل سے تصدیق تو کافر بھی کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿قَدْ نَعْلَمُ اِنَّہٗ لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّہُمْ لَا یُکَذِّبُوْنَکَ وَ لٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ،﴾ (الانعام:۳۳) ’’بے شک ہم جانتے ہیں کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ یقینا تجھے وہ بات غمگین کرتی ہے جو وہ کہتے ہیں۔ چنانچہ بلاشبہ وہ تجھے نہیں جھٹلاتے اور لیکن وہ ظالم اللہ کی آیات ہی کا انکار کرتے ہیں۔‘‘ نیز ارشاد فرمایا: ﴿وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ،﴾ (النمل:۱۴) ’’اور انھوں نے ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان کا انکار کر دیا۔ حالانکہ ان کے دل ان کا اچھی طرح یقین کر چکے تھے۔ پس دیکھ فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا۔‘‘ الغرض کفار بھی دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے تھے۔ لیکن محض تکبر، عناد، لوگوں میں اپنے جھوٹے مرتبے کی حفاظت کے لیے اور اپنے باطل ادیان کی حمیت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعتراف نہیں کرتے تھے۔ جیسا کہ ابوطالب نے اپنی وفات کے وقت کہا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس کی وفات کے وقت توحید کے اقرار کی دعوت دی تھی۔ اس کے پاس موجود کفار کی ایک جماعت نے اسے کہا: ’’کیا تو عبد المطلب کے دین کو چھوڑ رہا ہے۔ وہ بے جا حمیت کا شکار ہوگیا اور
Flag Counter