Maktaba Wahhabi

393 - 440
رغبت رکھتے ہیں اور اس بات کو پھیلاتے ہیں کہ یہ نیکی ہے۔ لیکن یہ بدعت اور گناہ ہے۔ کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مخالف ہے۔ ’’فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ ‘‘ خواہ لوگ اسے بدعت حسنہ کہتے ہیں۔ الغرض حدیث رسول کی نص اس بات کی دلیل ہے کہ تمام بدعات گمراہی ہیں۔ سو جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ کچھ بدعات حسنہ بھی ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلاتا ہے۔ کیونکہ دین میں کوئی بدعت حسنہ نہیں بلکہ دین وحی ہے جو اللہ تعالیٰ نے مشروع کیا ہے۔ جبکہ بدعات شیطان کی گمراہیوں میں سے ہیں۔ اگر ہم اس راہ کو کھول دیں گے تو دین کا حلیہ بگڑ جائے گا۔ ہر شخص اپنی پسند کی چیزیں ایجاد کرلے گا اور ہر کوئی اپنی منشاء کے مطابق عمل کرکے سنتوں کا انکار کرے گا۔ کیونکہ سنت اور بدعت کبھی جمع نہیں ہوسکتیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے: ((مَا أَحْدَثَ النَّاسُ بِدْعَۃً إِلَّا رُفِعَ مِثْلُہَا مِنَ السُّنَّۃِ۔)) ’’جب کبھی لوگ بدعت ایجاد کرلیتے ہیں تو اس کی مثل ایک سنت اٹھالی جاتی ہے۔‘‘[1] تو دین سنتوں کی بجائے بدعات اور من گھڑت چیزوں میں تبدیل ہوجائے گا۔ لہٰذا بدعت کا دروازہ کبھی نہیں کھولنا چاہیے اور نہ ہی اس میں کبھی سستی کرنی چاہیے۔ ۲۔بدعت نسبی: بدعت نسبی یہ ہے کہ وہ چیز اصلاً تو مشروع ہو لیکن اس کو کسی ایسے وقت یا جگہ کے ساتھ خاص کردیا جائے جس کو اللہ اور اس کے رسول نے مشروع نہیں کیا۔ مثلاً بعض خاص دنوں کے روزے رکھنا۔ جیسے پندرہ شعبان کا روزہ یا رجب کے مہینے کو خاص کرکے اس میں روزے رکھنا، یہ بدعت ہے۔ روزہ تو دین میں مشروع ہے۔ لیکن اسے بلادلیل کسی جگہ، کسی وقت کے ساتھ خاص کر دنیا
Flag Counter