Maktaba Wahhabi

16 - 67
کوئی اس میں سوراخ نہیں ہے اس کی باہر کی جانب تو ایسی ہے جیسے چاندی پگھلی ہوئی ہوتی ہے اور اس کا اندر خالص سونے کی طرح ،پھر اس کی دیواریں یکایک پھٹیں اور قلعہ کے اندر سے ایک حیوان سماعت اور بصارت والا نکلا تو ضرور اس کا کوئی فاعل ہونا چاہیئے۔ مراد اما م کی قلعہ سے انڈا ہے اور حیوان سے مراد چوزہ ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی دلیل۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ دہریوں کے حق میں تلوارتھے اور وہ لوگ ان کے قتل کی تاک میں لگے رہتے تھے۔امام رازی رحمہ اللہ نے زیر تفسیر’’ او کصیّب من السماء‘‘ یوں نقل کیا ہے کہ ایک دن امام رحمہ اللہ اپنی مسجد میں بیٹھے ہی تھے کہ اچانک ایک غول انہیں لوگوں کا ننگی تلواریں لئے ہوئے ان کے قتل کے ارادہ سے ان پر آن چڑھا۔ تو امام رحمہ اللہ نے کہا کہ تم لوگ پہلے مجھے ایک بات کا جواب دے دو پھر جو چاہو سو کرو۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہاں وہ بات پیش کرو تو انہوں نے کہا کہ تم لوگ اس شخص کے بارے میں کیا کہوگے جو تم سے یہ کہے کہ میں نے دریا میں ایک کشتی دیکھی ہے جس میں قسم قسم کے مال کے بوجھ بھرے ہوئے ہیں اور دریا کی موجیں جدھر ہواؤں کا زور ہوتا ہے اسکو ادھر ادھر نہیں کر سکتیں۔ اور مختلف قسم کی ہوائیں چلتی ہیں۔ لیکن وہ کشتی برابر سیدھی چلی جاتی ہے اور کوئی اس کا خبر گیر نہیں۔ نہ کوئی ملاح ہے جو اس کو چلائے۔ اپنے آپ ہی چلتی ہے تو کیا یہ بات عقلاً درست ہے یا نہیں؟ تو ان سب لوگوں نے کہا کہ اس بات کو عقل بالکل قبول نہیں کرتی۔ تو امام صاحب رحمہ اللہ نے کہا۔ سبحان اللہ !بڑا تعجب ہے کہ ایک کشتی کا دریا میں سیدھا چلا جانا بغیر کسی ملاح اور چلانے والے کے عقل تجویز نہیں کرسکتی اور
Flag Counter