Maktaba Wahhabi

22 - 67
اور چونکہ ممکن ہونا ایک صفت ہے اور صفت کے لئے موصوف کا ہونا ضروری ہے اسلئے ضروری ہے کہ کوئی چیز موجود تھی جس کے ساتھ امکان کا یہ وصف قائم تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ جب عالم موجود نہ تھا اس وقت بھی کوئی شے تھی جس سے یہ عالم وجود میں آیا۔ مثلاً دیکھو ایک صراحی جو اس وقت موجود ہے جب نہیں موجود تھی تب بھی کوئی شے (مٹی)موجود تھی جو ایک خاص صورت پکڑ کے اب صراحی بن گئی۔ امام غزالی رحمہ اللہ نے اس استدلال کو رد فرما دیا ہے کہ یہ مسلّم نہیں کہ ہر قسم کی صفات کے لئے موصوف کا وجود خارجی ضرور ہو۔ امتناع بھی تو ایک صفت ہے اس کا موصوف کہاں ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ شریک باری ممتنع ہے تو ظاہر ہے کہ امتناع کے صفت کا موصوف شریک باری ہے لیکن کیا شریک باری خارج میں موجود ہے اور کلی ہونا ایک وصف ہے اسکا موصوف خارج میں کیونکر پایا جاسکتا ہے خارج میں جو چیز موجود ہوگی وہ جزئی ہو کر ہوگی کلی نہیں ہو سکتی۔ پس یہ ادعا صحیح نہ رہا کہ صفت کا موصوف خارج میں موجود ہوتا ہے جس سے قدم عالم کا مسئلہ بالکل غلط نکلا۔ اب غیر موجود کو وجود بخشا اور ا سکا احداث جس ذات نے کیا ہم اسی کو اللہ کہتے ہیں۔ (الغزالی مؤلفہ شبلی ص101) وجودِ باری پر شکل کے حدوث سے استدلال مادّہ حادث ہے دلیل ملاحظہ ہو۔ کہ مادہ پر جو پہلی صورت تھی جب اس صورت کے سوا دوسری صورت آتی ہے تو اب وہ حال سے خالی نہیں۔ یا توصرف اول مثلاً کردیت تھی۔ صورت ثانیہ کے وقت جو مربیعت ہے۔ زائل
Flag Counter