Maktaba Wahhabi

168 - 277
( عَلَقَۃٌ ):پانی کا ایک کیڑا ہوتا ہے جو خون چوستاہے۔ اس کی جمع( عَلَقٌٌ ) آتی ہے ۔ یہ علق وہ سرخ کیڑا ہے جو پانی میں ہوتاہے اور جسم کے ساتھ چپک جاتاہے ؛ اور خون چوستا ہے۔‘‘ [لسان العرب 10؍261] جبکہ علامہ فیروز آبادی کہتے ہیں: ’’ ( عَلَقَۃٌ )پانی کا ایک کیڑا ہے جو خون چوستاہے۔‘‘ [القاموس المحیط 1؍1175] تمام قدیم مفسرین کے اقوال اہل لغت کے اقوال سے باہر نہیں جاتے۔ جب کہ دور جدید کے بعض مفسرین نے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے جہاں تک جدید سائنسی علوم نے ترقی کی ہے۔ ایک معاصر مفسر علامہ ابن عاشور رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’قرآن کا سائنسی معجزہ یہ ہے کہ:اس تخلیق ہونے والی چیز کانام علقہ رکھا گیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نام کی یہ انتہائی بدیع وضع ہے۔ کیونکہ سائنس کا علم تشریح الابدان یہ بتاتا ہے کہ یہ جزء جس میں نطفہ یہ شکل اختیار کرلیتا ہے؛ اس میں ماں کا خون چوسنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے؛ کیونکہ یہ رحم کے ساتھ چپکا ہوتا ہے؛ اور خون اس کی طرف گردش کرتا ہوا آتا ہے۔ علقہ جمے ہوئے خون کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے۔‘‘ [التحریر والتنویر 1؍2821] تیسرا مرحلہ: بوٹی[مضغہ ] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: { فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً } [المؤمنون ۱۴] ’’ پھر جمے ہوئے خون کو بوٹی بنایا۔‘‘ { مُضْغَۃً }:[بوٹی]اصل میں اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان اپنے منہ میں چباتاہے۔ اگر انسان گوندھے آٹے کا ایک ٹکڑا[یا چیونگم؍ببل] وغیرہ لیکر اسے چبائے؛ اورپھر اپنے سامنے تختی [یا ٹیبل] پر رکھ کر تصویر بنائی جائے؛اور جنین کے اس مرحلہ کی تصویر بھی بنائی جائے۔ پھر ان دونوں تصویروں کو ایک جگہ پر رکھ کر معاینہ کیا جائے تو ان دونوں میں فرق کرنا استطاعت
Flag Counter