Maktaba Wahhabi

230 - 277
ہے۔اس کے ایک طرف سے شارع سیح اور دوسری طرف سے شارع سلطانہ گزرتی ہے۔ یہ پہاڑ آج تک اپنے اسی نام سے مشہور ہے۔ لگتا یہ ہے کہ وہ یہود جو اس آنے والے نبی کے انتظار میں مدینہ طیبہ میں جا آباد ہوئے تھے؛ وہ مدینہ میں اس پہاڑ کے وجود سے مانوس ہوگئے تھے۔ تو انہوں نے اس نبی کے انتظار میں یہاں پر پڑاؤ ڈالا جس کی جانب سفر اشیعاء میں اشارہ کیا گیا ہے۔ ھ۔ انجیل انجیل یوحنا کی اصحاح (14) میں آیا ہے:’’بیشک حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا: ’’ اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو میری وصیتوں کو یاد کرلو۔ میں اپنے باپ سے مطالبہ کروں گاوہ تمہیں اس آخری فارقلیط سے نواز دے جو ہمیشہ کے لیے تمہارے ساتھ رہے گا۔‘‘ فارقلیط کا لفظ یونانی زبان سے ترجمہ کیا گیاہے؛ اور یونانی زبان میں یہ لفظ ارامی زبان سے ترجمہ ہوکر آیاہے؛ جو کہ اصل میں عبرانی زبان ہے۔ یونانی زبان میں یہ کلمہ ’’بارا کلی طوس‘‘ ہے۔مسلمان علماء کہتے ہیں کہ :اصل میں یہ کلمہ ’’بیر کلو طوس ‘‘سے تحریف کرکے بنایا گیا ہے۔ اس لیے کہ آخری رسم تحریر کے حساب سے اس کا ترجمہ بنتا ہے جو بہت زیادہ تعریف کرنے والا ہو؛ دوسرے لفظوں میں ’’احمد۔‘‘ پروفیسر عبد الوہاب نجار نے اٹلی کے مستشرق ’’کارلو نلینو‘‘ سے اس لفظ کے یونانی معنی کے بارے میں پوچھا تھا؛-یہ مستشرق یونانی زبان کا ماہر تھا- تو اس نے جواب دیا ’’جو بہت زیادہ تعریف کرنے والا ہو۔‘‘ تو انہوں نے پوچھا کیا یہ ترجمہ ’’افعل تفضیل ‘‘ میں احمد کے معنی کے موافق ہے ؛ تو اس نے کہا : ہاں۔‘‘[قصص الانبیاء 197۔ منشورات مؤسسہ حلبی قاہرہ (1386ھ )] یہ معنی قرآن میں وارد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس بشارت کے موافق ہے : { وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَاْتِی مِنْ بَعْدِی اسْمُہُ اَحْمَدُ } [الصف 6] ’’اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں، جو میرے بعد آئیگا اس کا نام احمد
Flag Counter