Maktaba Wahhabi

252 - 325
یہ ہےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کے استسقاء کی پوری حقیقت۔لیکن زیر بحث حدیث کا تو اس مسنون استسقاء سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ جیسا کہ اس میں ذکر ہے بلال بن حارث یا کسی اور نے بارش کی دعا کے لئے کسی زندہ سے درخواست ہی نہیں کی ‘بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اﷲعنہ کی خلافت کے زمانے میں آپ کی قبر پر جاکر آپ سے دعاکی درخواست کی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اﷲنے جس کو وفات دے کراپنے پاس بلالیا اس سے کس طرح دعا کی درخواست کی جاسکتی ہے اورکیا حقیقت میں آپ نے اس سائل کی درخواست پر اﷲسے دعا فرمائی؟ہرگز نہیں۔یہ ممکن بھی نہیں۔اس لئے کہ وفات کی وجہ سے آپ کا عمل منقطع ہوگیااور دعا ایک عمل ہے جسے مردہ شخص نہیں کرسکتا۔ معلوم ہوا کہ آپ نے دعا نہیں فرمائی اور استسقاء کا عمل واقع نہیں ہوا ‘کیونکہ اس کا سب سے اہم جز’’دعا‘‘عمل میں آیا ہی نہیں۔ ۲۔مُردوں سے خطاب: شریعت اسلامیہ میں مردوں سے بات چیت ‘ان سے سوال اور دعا کی درخواست جائز نہیں۔کیونکہ ان کا عمل ان کی وفات کی وجہ سے ختم ہوگیا۔جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ اذا مات ابن اٰدم انقطع عملہ الا من ثلاث صدقۃ جاریۃ وعلم ینتفع بہ وولدٍ صالحٍ یدعو لہ ’’جب انسان مرچکا تو اس کا عمل ختم ہوگیا سوائے تین طریقہ کے ’صدقہ‘جاریہ ‘نفع بخش علم‘صالح اولاد جو اس کے لئے دعاکرے۔‘‘
Flag Counter