Maktaba Wahhabi

169 - 331
نفی۔٭اُلو سے فالِ بد کی ممانعت۔٭صفر کے عقیدہ کی تردید۔٭فال کی ممانعت نہیں بلکہ یہ مستحب ہے۔٭فال پر مفصل بحث اور اس کے تمام پہلوؤں کی وضاحت۔٭اگر فال بد کے وساوس دل میں پیدا ہوجائیں اور انسان ان کو ناپسند کرے تو یہ تکلیف دہ نہیں ہوتے بلکہ الله تعالیٰ پر توکل اور اعتماد کی وجہ سے یہ وساوس ختم ہوجاتے ہیں۔٭جس شخص کے دل میں اس قسم کے وساوس پیدا ہوجائیں ان کو رفع کرنے کی دعاء۔٭فال بد کے شرک ہونے کی تصریح۔٭قابل مذمت تطیر سے پردہ اٹھاگیا ہے اور پوری تفصیل سے اس نشاندہی کی گئی ہے۔ بابُ: مَا جَاءَ فِی التَّنْجِیْمِ اس باب میں علم نجوم کے بارے میں شرعی احکام کی وضاحت کی گئی ہے۔ قال البخاری فی صحیحہ قال قتادہ خَلَقَ اللّٰه ھٰذِہِ النُّجُوْمَ لِثَلَاثٍ زِیْنَۃً لِّلسَّمَآئِ وَرُجُوْمًا لِّلشَّیٰطِیْنِ وَ عَلَامَاتٍ یُّھْتَدٰی بِھَا فَمَنْ تَأَوَّلَ فِیْھَا غَیْرَ ذٰلِکَ أَخْطَأَ وَ أَضَاعَ نَصِیْبَہٗ وَ کَلَّفَ مَا لَا عِلْمَ لَہٗ بِہٖ انتھی امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح بخاری میں فرماتے ہیں کہ قتادۃ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے ان ستاروں کو تین چیزوں کے لئے پیدا فرمایا ہے۔(۱)۔آسمان کی زینت کیلئے۔(۲)۔شیاطین کو مارنے کیلئے۔(۳)۔اور برو بحر میں راستے معلوم کرنے کے لئے۔جو شخص اس کے علاوہ کوئی اور مطلب لیتا ہے وہ خطاکار ہے۔اس نے اپنا حصہ شرعی ضائع کردیا اور خود کو اس تکلف میں ڈال دیا،جس کا کوئی علم نہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’آسمانی سیاروں کی رفتار سے زمین کے حادثات و واقعات کی کھوج لگانے کو تنجیم کہتے ہیں۔‘‘ الخطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’وہ علم نجوم جس کی کتاب و سنت میں ممانعت کی گئی ہے،وہ یہ ہے کہ نجومیوں کا یہ دعویٰ کرنا کہ آنے والے فلاں دن یا فلاں مہینے میں یہ حادثہ رُونما ہو گا۔یا اس قسم کی ہوا چلے گی،یا فلاں وقت بارش ہو گی یا فلاں چیز مہنگی ہو جائے گی،فلاں سستی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔اس قسم کی پیشن گوئی سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ فلاں ستارہ جب فلاں برج میں داخل ہوتا ہے یا
Flag Counter