Maktaba Wahhabi

216 - 331
دیا جائے۔چنانچہ عبدالقیس کا یہ قافلہ جب حمراء الاسد پہنچا تو ابوسفیان کی یہ بات بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا دی۔آپ اُس وقت تک ابھی حمراء الاسد ہی میں قریش کے انتظار میں تھے۔اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی فرمایا:’’حَسْبُنَا اللّٰه وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ۔‘‘ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس واقعہ میں اس عظیم الشان دعائیہ جملہ کی عظمت اور فضیلت کا پتا چلتا ہے کیونکہ یہ دو خلیلوں کا متفقہ دعائیہ جملہ ہے اور وہ بھی انتہائی مشکل وقت میں۔ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’جب تم کسی بڑی مصیبت میں گھر جاؤ تو یہ دعا وردِ زبان رکھا کرو،اللہ تعالیٰ ہر مشکل کو آسان کر دے گا۔وہ عظیم دعا یہ ہے:’’حَسْبُنَا اللّٰه وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ۔‘‘ فیہ مسائل ٭ توکل علی اللہ فرائض میں سے ہے۔٭ ایمانِ صادق کی سب سے بڑی شرط یہی توکل ہے۔٭کلمہ ’’حَسْبُنَا اللّٰه وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ‘‘ کی عظمت اور اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ مشکل اور مصیبت کے وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں نے اِسے پڑھا۔ بابُ: اَفَاَمِنُوْا مَکْرَ اللّٰه فَلَا یَاْمَنُ مَکْرَ اللّٰه اِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُوْنَ(الاعراف:۹۹) کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔ اس مقام پر اس آیت کریمہ کے ذکر سے مصنف رحمہ اللہ کا مقصد یہ تنبیہ کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بے خوف ہو جانا بالکل اسی طرح کے عظیم گناہوں میں سے ہے اور توحید الٰہی کے سراسر خلاف ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نااُمید ہو جانا بہت بڑا گناہ ہے۔یہ آیت کریمہ اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ مومن کو چاہیئے کہ وہ خوف اور رِجا کی کیفیتوں کے درمیان اپنی زندگی بسر کرے جیسا کہ کتاب و سنت اور سلف ِ اُمت نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
Flag Counter