Maktaba Wahhabi

266 - 331
کہ بعض لوگوں نے اپنے اشعار میں یوں کہا:’’اے معزز ترین مخلوق! تیرے سوا میرا کوئی ایسا نہیں جس کی میں عام مصیبتوں کے آنے پر پناہ لے سکوں۔اگر تو مہربانی فرما کر قیامت کو میرا ہاتھ نہ پکڑے تو کہہ،ہائے قدم کا پھسلنا۔تیری سخاوت میں سے دُنیا اور اس کی سوت(آخرت)ہے اور تیرے ہی علم میں سے لوح و قلم ہیں۔‘‘ مندرجہ بالا اشعار میں کس قدر جہالت اور گمراہی بھری ہوئی ہے۔شاعر اپنا عقیدہ بیان کرتا ہوا کہتا ہے کہ نجاتِ اُخروی اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ غیر اللہ کی پناہ حاصل نہ کی جائے۔حقیقت یہ ہے کہ شاعر اُن حدود سے تجاوز کر گیا ہے جن سے تجاوز کرنا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:’’میری تعریف میں غلو نہ کرنا جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق غلو کیا تھا۔میں صرف ایک بندہ ہوں،مجھے صرف اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول کہا کرو۔‘‘(رواہ مالک وغیرہ)۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(ترجمہ)’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں،نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔‘‘(انعام:۵۰)۔ مندرجہ بالا آیاتِ قرآنی اور(ترجمہء)اشعار میں بہت بڑا اختلاف پایا جاتا ہے بلکہ حقیقت میں یہ اشعار اللہ تعالیٰ اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کرنے کے مترادف ہیں۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ نہ کہو کہ ’’جو اللہ چاہے اور فلاں شخص چاہے۔‘‘ بلکہ یہ کہو ’’جو اللہ چاہے اور پھر جو فلاں شخص چاہے۔‘‘ فیہ مسائل ٭ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ وہ شرکِ اکبر کے متعلق جو آیت نازل ہوتی اسے شرکِ اصغر پر بھی محمول کرتے۔٭غیراللہ کے نام کی قسم کھانا شرک ہے۔٭غیر اللہ کے نام کی سچی قسم کھانا،اللہ کی جھوٹی قسم کھانے سے بھی بدترین فعل ہے۔ بابُ: مَا جَاءَ فیمن لم یقنع بالحلف باللّٰه اس باب میں کہ بیان کیا گیا ہے کہ اپنے آباؤاجداد کی قسم نہیں کھانی چاہئے اور
Flag Counter