Maktaba Wahhabi

275 - 331
بندے سے قرض طلب کیا اور اُس نے مجھے نہیں دیا۔اور الٹا مجھے یوں گالی دی کہ ’’ہائے زمانہ‘‘ کیونکہ میں ہی حقیقت میں زمانہ ہوں۔ ابن حزم رحمہ اللہ اور ان کے ہمنوا علمائے ظاہریہ نے اسی حدیث کو سامنے رکھ کر الدہرؔ کو اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں شمار کیا ہے۔ان کا یہ قیاس اور اجتہاد درست نہیں۔الدہرؔ کے معنی کی خود اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمائی کہ ’’رات اور دن کو میں ہی بدل کر لاتا ہوں۔‘‘ زمانے میں انقلاب و تغیر صرف اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ان میں بعض تغیرات کو لوگ اچھا سمجھتے ہیں اور بعض کو ناگوار قرار دیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جو کچھ زمانے میں خیر و شر کا وقوع ہو رہا ہے،وہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر اور اُس کے علم میں ہے اور اس کی حکمتوں کے مطابق ہو رہا ہے۔جس میں کسی غیراللہ کو قطعی طور سے شرک نہیں ہے۔کیونکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ہو جاتا ہے اور نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔لہٰذا دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور اُس سے حسن ظن رکھنا چاہیئے اور انتہائی درماندگی اور بے بسی کی حالت میں اس کی رحمت کی اُمید ہونی چاہیئے اور اسی سے توبہ و استغفار کرنا چاہیئے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ:(ترجمہ)’’اور ہم آسائشوں اور تکلیفوں(دونوں)سے اُن کی آزمائش کرتے رہے تاکہ وہ ہماری طرف رجوع کریں۔‘‘(الاعراف:۱۶۸)۔ایک مقام پر ارشادِ ربانی ہے کہ:(ترجمہ)’’اور ہم اچھے اور برے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں آخر کار تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔‘‘(الانبیاء:۳۵)۔ فیہ مسائل ٭ زمانے کو گالی دینے سے روکنا۔٭ زمانہ کو گالی دینا حقیقت میں اللہ تعالیٰ کو ایذا دینا ہے۔٭ زمانے کو برا کہنا بعض اوقات گالی ہی ہوتا ہے اگرچہ انسان کے دِل میں گالی دینا مقصود نہ ہو۔ بابُ: التسمی بقاضی القضاۃ و نحوہٖ مصنف رحمہ اللہ نے کسی کو ’’قاضی القضاۃ‘‘ کہنے کی ممانعت میں یہ عنوان تجویز
Flag Counter