Maktaba Wahhabi

294 - 331
بھی تصریح موجود ہے کہ ربِّ کریم اہل جنت کو سلامتی کا پیغام دے گا۔قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں:’’سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ‘‘ رب رحیم کی طرف سے اُن کو سلامتی کا پیغام ہے۔(یٰسین:۵۹)۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص اور تمثیل سے پاک اور بے نیاز ہے وہ ایسا ربِّ کریم ہے جس میں کمال کی تمام صفات موجود ہیں اور ہر عیب اور نقص سے منزہ و مبرہ ہے۔ فیہ مسائل ٭ لفظ السلام کی تفسیر۔٭ یہی لفظ اہل جنت کا سلام ہونا۔٭ یہ لفظ ذاتِ باری تعالیٰ کے لئے درست نہیں۔٭اس لفظ کے نہ کہنے کی وجہ۔٭ اُس تحیہ کی تعلیم جو اللہ تعالیٰ کے لئے زیبا ہے۔ بابُ: اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ اِنْ شِئْتَ اس باب میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ انسان کو دعا کرتے وقت پورے عزم اور وثوق سے اپنی حاجات رب ذوالجلال کے سامنے پیش کرنی چاہئیں،شک اور تذبذب کی کیفیت ہرگز اپنے اُوپر طاری نہ ہونے دے۔ فی الصحیح عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰه عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قَالَ لَا یَقُلْ اَحَدُکُمْ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ اِنْ شِئْتَ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ اِنْ شِئْتَ لِیَعْزِمِ الْمَسْاَلَۃَ فَاِنَّ اللّٰه لَا مُکْرِہَ لَہٗ وَ لِمُسْلمٍ وَ لْیَعْزِمِ الرَّغْبَۃَ فَاِنَّ اللّٰه لَا یَتَعَاظَمُہٗ شیْیئٌ اَعْطَاہُ صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کسی شخص کو یہ نہ کہنا چاہیئے کہ اے اللہ! اگر تو چاہتا ہے تو میری مغفرت فرما۔اے اللہ! اگر تو چاہتا ہے تو مجھ پر رحم فرما۔بلکہ چاہیئے کہ اپنے سوال کو پورے عزم اور پختگی سے پیش کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کوئی دباؤ نہیں ڈال سکتا۔صحیح مسلم میں یہ الفاظ ہیں:’’اپنے رب تعالیٰ سے بڑے وثوق سے سوال کرے کیونکہ اُس کے سامنے کوئی چیز بڑی نہیں ہے۔‘‘
Flag Counter