Maktaba Wahhabi

319 - 331
کی تعریف فرمائی ہے اور جن نئی نئی بدعات کا ظہور ہونے والا تھا،اس کی پیشگوئی بھی فرما دی۔ بابُ: مَا جَاءَ فی ذمۃ اللّٰه و ذمۃ نبیہ اس باب میں وضاحت سے یہ بتایا گیا ہے کہ انسان اپنے عہد و پیمان توڑ دے تو یہ گناہ ہلکا ہے بنسبت اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد و پیمان توڑنے کے۔ وقولہ تعالی وَ اَوْفُوْا بِعَھْدِ اللّٰه اِذَا عَاھَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوْا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰه عَلَیْکُمْ کَفِیْلًا اِنَّ اللّٰه یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ(النحل:۹۱)۔ اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرو جبکہ تم نے اُس سے کوئی عہد باندھا ہو اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو جبکہ تم اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو۔اللہ تعالیٰ سب افعال سے باخبر ہے۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تاکیدی حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے قول و قرار اور عہد ومیثاق کو پورا کریں اور قسموں کی کاملاً حفاظت کریں۔اسی لئے حکم فرمایا کہ دیکھو:(ترجمہ)’’قسم اٹھانے کے بعد اُسے توڑو نہیں۔‘‘(النحل:۹۱)۔اس آیت کریمہ اور میں مندرجہ ذیل آیت میں کوئی تعارض نہیں ہے:(ترجمہ)’’اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بناؤ۔‘‘(البقرۃ:۲۲۴)۔اور آیت(ترجمہ)’’یہ ہے تمہاری قسموں کا کفارہ۔جب کہ تم قسم اٹھاؤ۔اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔‘‘(المائدہ:۸۹)۔ اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِ گرامی اور ان آیات میں بھی کوئی تناقض نہیں ہے: ’’اگر قسم اٹھانے کے بعد کوئی دوسرا پہلو بہتر دکھائی دے تو میں قسم کو توڑ کر بہتر پہلو اختیار کر لیتا ہوں،اور میں اپنی پہلی قسم کا کفارہ ادا کر دیتا ہوں۔‘‘ ان آیات اور حدیث پاک میں فی الواقع کوئی تعارض یا تناقض نہیں ہے کیونکہ ان آیات میں وہ قسمیں مراد ہیں جو کسی عہد و پیمان میں داخل ہیں۔اور جن قسموں کو توڑنا جائز بلکہ بعض اوقات ضروری ہو جاتا ہے،ان سے وہ قسمیں مراد ہیں جو کسی کو ترغیب دینے یا کسی چیز کے نہ دینے کے بارے میں اٹھائی جائیں۔اسی بنا پر اس
Flag Counter