Maktaba Wahhabi

233 - 332
کہا جاسکتا وہ منہج سلف پر تھا جب تک کہ وہ کتاب و سنت کے فہم میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی موافقت نہ کرتا ہو۔ اسی لیے علماء اس اصطلاح کو ’’السلف الصالح‘‘کے لفظ سے مقید کرتے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’السلف‘‘ کی اصطلاح بہت مطلق ذکر ہو تو اسے محض سبقت زمانی کی طرف نہیں پھیرا جا ئے گا بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اور ان کے متبعین ہی مراد لیے جائیں گے۔ اس اعتبار سے سلف کی اصطلاح متعین ہو گئی۔ چنانچہ اس کا اطلاق اس شخص پر کیا جائے گا جو اسی عقیدے اور منہج پر رہتا ہے ، جواختلاف و انتشار سے پہلے تھا اور جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے۔ سلفیّت یہ ’’سلف‘‘کی طرف نسبت ہے اور یہ نسبت اس منہج کی طرف ہے جو مضبوط اور قابل تعریف ہے، نہ کہ ایک نئے مذہب کی اختراع۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ’’مجموع الفتاویٰ‘‘ کی جلد ۴صفحہ ۱۴۹ پر فرماتے ہیں : ’’جو شخص اپنا مذہب سلف والا بتا ئے اور اس کی طرف نسبت کرے تو اس پر کوئی عیب نہیں ۔ بلکہ اس کی اس نسبت کو قبول کرنا بالا تفاق واجب ہے کیوں کہ سلف کا مذہب حق کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ‘‘ بعض ایسے لوگ جو سلفیت کو جانتے تو ہیں لیکن جب سلفیت کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے انحراف کرتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک نئی اسلامی جماعت کی کوشش ہے جس نے خود کو مرکزی اسلامی جماعت سے الگ کر لیا ہے اور یہ اکیلی اس معنی کا متعین مفہوم اپنے لیے رکھتی ہے۔ [1] یہ جماعت باقی مسلمانوں سے اپنے احکام و میلان کے ساتھ ایک خاص
Flag Counter