Maktaba Wahhabi

309 - 332
توحیدکے مسائل، خالق کائنات، آخرت کے اثبات، انبیاء کو بھیجنے اور کائنات کی تخلیق کے دلائل سے بھرا پڑا ہے۔ چنانچہ متکلمین وغیرہ ان مسائل میں جو بھی دلیل پیش کرتے ہیں قرآن میں وہ دلیل اس سے زیادہ فصیح عبارت، واضح انداز بیاں ، کامل معنی کے ساتھ بیان کی گئی ہوتی ہے ۔ان کی بیان کردہ دلیل کی نسبت اعتراضات اور اشکالات سے بالکل پاک ہوتی ہے۔ امام غزالی کا اعتراف: متقدمین اور متاخرین میں سے انتہائی ذہین متکلمین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے۔ چنانچہ ابو حامد(الغزالی) اپنی کتاب ’’احیاء علوم الدین ‘‘ کے شروع میں فرماتے ہیں : اگر آپ کہیں کہ آپ نے فلسفہ اور علم کلام کو علم کی اقسام میں کیوں نہیں بیان کیا اور اس بات کی وضاحت کیوں نہیں کی کہ فلسفہ اور علم کلام مذموم چیز ہیں یا قابل تعریف ؟ تو آپ جان لیجئے کہ جن دلائل پر علم کلام مشتمل ہے اور جن سے فائدہ اٹھاتا ہے قرآن وحدیث میں وہ سب موجود ہیں ۔ اور جو دلائل قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہیں وہ یا تو خواہ مخواہ کا قابل مذمت جھگڑا ہے، جو کہ بدعت ہے۔ یا یہ محض فرقوں کے اختلافی مسائل کے متعلق ہنگامہ آرائی ہے۔ یا ایسی باتوں کو طول دینے کے مترادف ہے جن میں سے اکثر فضولیات اور بکواسات ہیں جو طبیعت پر گراں گزرتی ہیں اور کان ان کو پسند نہیں کرتے۔ اور بعض ایسی ہیں جن کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور پہلے دور میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی لیکن اب اس کاحکم تبدیل ہو چکا ہے۔ کیوں کہ قرآن و سنت کے تقاضوں سے ہٹانے والی بدعات ایجاد ہو چکی ہیں جنہوں نے قرآن و سنت کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں اور ان کے متعلق اپنی طرف سے باتیں گھڑ لی ہیں ۔ چنانچہ یہ ممنوع کام مجبوری کی وجہ سے جائز ہوجائے گا۔ ‘‘ امام رازی کا اعتراف: امام رازی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ اقسام اللذات‘‘ میں فرماتے ہیں : میں نے علم کلام کی کتابوں پر غور کیا اور فلسفیوں کے طریقہ کار کو پرکھا تو میں نے دیکھا
Flag Counter