Maktaba Wahhabi

184 - 234
باب:من ھزل بشی فیہ ذکر اللّٰه او القرآن او للرسول باب: جو ایسی چیز کا مذاق اڑائے جس میں اللہ کانام یا قرآن یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہو [اس باب میں یہ بیان کیا جائے گا کہ قرآن کریم، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی ایسی چیز کا مذاق اُڑانا جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے ایک کافرانہ فعل ہے۔] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِہٖ وَ رَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَھْزِئُوْنَ﴾(التوبہ:۶۵) ’’اگر ان سے پوچھیں کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے۔ ان سے کہو ’’کیا تمہاری ہنسی، دل لگی اللہ، اس کی آیات اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ تھی۔‘‘ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ؛ محمد بن کعب ؛ زید بن اسلم ؛ اور قتادہ سے مروی ہے کہ:[ان کی باتیں آپس میں ملی ہوئی ہیں]: ’’ غزو تبوک کے موقع پر ایک منافق نے کہا: ہم نے پیٹ کے پجاری، زبان کے جھوٹے اور میدان جنگ میں سب سے زیادہ بزدل، ان علم والوں سے بڑھ کر اور کوئی نہیں دیکھے۔ اس کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے قراء صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین تھے۔ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: تو جھوٹا اور(پکا)منافق ہے۔ میں تیری بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور بتاؤں گا۔ چنانچہ حضرت عوف رضی اللہ عنہ یہ بتانے کی غرض سے آپ کے پاس گئے مگر ان کے آنے سے پہلے وحی نازل ہو چکی تھی۔ وہ منافق بھی آپ کی خدمت میں(معذرت کے لیے) آپہنچا، آپ اونٹنی پر سوار ہو کر روانہ ہو چکے تھے۔ وہ بولا: یا رسول اللہ! ہم لوگ تو محض دل بہلانے کے لیے ایسی بات چیت اور سواروں کی سی باتیں کر رہے تھے، تاکہ سفر کی مشقت ہلکی کر سکیں(اور بوریت نہ ہو) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں وہ منظر اب بھی میرے سامنے ہے کہ وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے کجاوے کی رسی کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور پتھر اس کے پاؤں سے ٹکرا رہے ہیں اور وہ کہہ رہا ہے ہم تو محض بات چیت اور دل لگی کر رہے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں: ﴿وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِہٖ وَ رَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ
Flag Counter