Maktaba Wahhabi

123 - 242
ثابت ہیں ۔ [1] چار تکبیروں پر اجماع کا دعویٰ: حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ چار تکبیروں پر اجماع ہو چکا ہے مگر ان کا یہ دعویٰ ناواقفی کی بنا پر ہے۔ کیونکہ سیدنا علی، سیدنا عبداللہ بن مسعود، سیدنا انس بن مالک، سیدنا عبداللہ بن عباس، اور سیدنا زید بن ارقم ایسے کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے چار سے زائد تکبیریں ثابت ہیں جیسا کہ ہم حوالہ دے چکے ہیں اور وہ اجماع کہ جو سیدنا علی، سیدنا عبداللہ بن مسعود، سیدنا عبداللہ بن عباس اور دیگر کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کی حمایت سے محروم ہو، درخور اعتناء اور قابل التفات ہرگز نہیں ، چنانچہ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کیا خوب لکھتے ہیں : ((اُفٍّ لِکُلِّ اِجْمَاعٍ یُخْرُجُ مِنْہُ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ وَعَبْدُاللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ وَاَنَسُ بْنُ مَالِکٍ وَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضی اللّٰه عنہم بِاَسَانِیْدَ فِیْ غَایَۃِ الصِّحَّۃِ))[2] اس اجماع کا ستیاناس کہ جس میں سیدنا علی، سیدنا ابن مسعود، سیدنا انس اور ابن عباس رضی اللہ عنہم شامل نہ ہوں ۔ چار تکبیروں کو ترجیح: بعض علماء نے متعدد وجوہات کی بنا پر چار تکبیروں کو راجح قرار دیا ہے مگر یہ بھی صحیح نہیں ۔ کیونکہ ترجیح تعارض کے وقت ہوتی ہے۔ یہاں کوئی تعارض ہے ہی نہیں ۔ کیونکہ دونوں امرجائز نہیں ۔[3] نمازِ جنازہ کے بعد درمیان میں شامل ہونے والا: اگر کوئی شخص بعد میں آئے اور نماز جنازہ کی کچھ تکبیریں ہو چکی ہوں تو بعد میں ملنے والا
Flag Counter