Maktaba Wahhabi

139 - 242
((ہٰذَا قَدْ حَمَلَہُ الْقَاضِیْ وغَیْرُہٗ عَلٗی اَنَّ مُرَادَہٗ اِنَّ اِظْہَارَہَا فِی الْمَسْجِدِ وَالْاِجْتِمَاعَ لَہَا ہُوَ الْبِدْعَۃُ لَا اِنَّ صَلٰوۃَ الضُّحٰی بِدْعَۃٌ))[1] ’’قاضی عیاض وغیرہ نے کہا کہ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کامطلب یہ ہے کہ چاشت کی نماز کا مسجد میں اظہار کر کے پڑھنا اور اس کے لیے خاص اہتمام اور اجتماع کرنا بدعت ہے نہ کہ خود نماز چاشت بدعت ہے۔‘‘ فقہاء احناف کے فتاویٰ اس نازک پہلو پر قدرے روشنی ڈالنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرات فقہاء احناف کے فتاویٰ بھی لکھ دیے جائیں تاکہ حنفی بھائی اپنے اکابر اور بزرگ فقہاء احناف کے فتاویٰ کی روشنی میں اپنی مروجہ روش کی اصلاح کر سکیں ۔ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلاَّ بِاللّٰہِ وَبِیَدِہِ التَّوْفِیْقُ وَالصَّلَاحُ ۱۔ خواجہ محمد سعید حنفی بن مجدد الف ثانی: مخدوم زادہ بزرگ خواجہ محمد سعید دامت برکاتہ نماز جنازہ پیر و پدر بزرگوار خودر رحمہ اللہ نمودند بعد از نماز برائے دعا توقف نفر مودند کہ مقتضی سنت چنیں نیست و در کتب فقہ معتبرہ مرقوم است کہ بعد از نماز ایستادہ دعا کردن مکروہ است[2] کہ: خواجہ محمد سعید نے اپنے والد بزرگوارحضرت مجدد الف ثانی کی نماز جنازہ پڑھائی اور پھر دعاکے لیے کھڑے نہ ہوئے کیونکہ یہ دعا خلافت سنت ہے اورکتب فقہ حنفیہ معتبرہ میں نمازجنازہ کے بعد کھڑے ہو کر دعا کرنے کو مکروہ لکھا ہے۔ نوٹ:..... کراہت سے مراد عموماً کراہت تحریمی ہوتی ہے۔[3]
Flag Counter