Maktaba Wahhabi

148 - 242
مسئلہ کی بنیادبنایا جائے۔ علاوہ ازیں حدیث کی کسی معتبر کتاب میں کہیں ان کا ذکر نہیں اور جو حدیث محدثین کی کتابوں میں نہ ہو وہ مقبول نہیں ہوتی۔ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((مَنْ جَائَ الْیَوْمَ بِحَدِیْثٍ لَا یُوْجَدُ عَنِ الْجَمِیْعِ لَا یُقْبَلَ))[1] شیخ الکل رحمہ اللہ کا فتویٰ: اس بحث کے آخر میں شیخ الکل کا فتویٰ بھی سنتے چلیے لکھتے ہیں : ہمراہ جنازہ کے قرآن مجید کو لے جانے اور بعد نمازجنازہ اس کو ایک دوسرے کے ہاتھوں پھرانے اور ایجاب قبول کرنے کا جو دستور ہے وہ بالکل ناجائز نا درست بدعت اور مُحْدَثٌ ہے۔ اس دستور کو مٹانا اور بند کرنا، لوگوں کو اس ناجائز دستور سے روکنا اورمنع کرنا حسب استطاعت فرض ہے۔ [2] لمحہ فکریہ: مستفتی حضرات کی خدمت میں گذارش ہے کہ اپنے استفتاء میں زید ،بکر اور عمر کے نام نہ لکھا کریں ۔ کیونکہ میرے ناقص خیال میں زید سے مراد سیدنا زید رضی اللہ عنہ ہیں جو قرآن مجید کے جامع ہیں اور بکر سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ مراد ہیں ، بعض لوگوں کو ان بزرگ صحابہ رضی اللہ عنہم سے جو چڑ ہے وہ محتاج بیان نہیں ، علم صرف و نحو کے بعض افاضل چونکہ رافضیت سے مانوس تھے انہوں نے نحو میں انہی تینوں بزرگوں کو فاعل اور مفعول کے طور پر استعمال کیا۔ ان کی نیتوں کا اصل صحیح علم تو اللہ تعالیٰ ہی کو ہے مگر بظاہر ایسا کرنے میں ان کی روش کوئی اچھی معلوم نہیں ہوتی۔ علم نحو میں ان بزرگ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ناموں کے لیے بے محابہ استعمال سے ہم بھی کچھ ایسے متاثر ہو چکے ہیں کہ ہم بھی انہی اَجِلّہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اسماء گرامی ہر اچھی بری مثال میں بے جھجک استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ اس میں استخفاف کا پہلو نکلتا ہے اس لیے مثالوں میں مذکورہ ناموں کو بطور فرض استعمال کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں ، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ لَعَلَّ فِیْہِ کَفَایَۃٌ لِمَنْ لَہٗ دَرَایَۃٌ۔
Flag Counter