Maktaba Wahhabi

164 - 242
علامہ کمال ابن الہمام حنفی کا فتویٰ: ((وَیُکْرَہُ عِنْدَ الْقَبْرِ کُلُّ مَالَمْ یُعْہَدُ مِنَ السُّنَّۃِ الْمَعْہُوْدِ مِنْہَا لَیْسَ اِلَّا زِیَارَتُہَا وَالدُّعَاہُ عِنْدَہَا قَائِمًا کَمَا کَانَ یَفْعَلُ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْخُرُوْجِ اِلَی الْبَقِیْعِ))[1] ’’قبر کے پاس ہر وہ چیز مکروہ ہے جو سنت سے ثابت نہ ہو اور سنت سے ثابت صرف یہ ہے کہ قبر کی زیارت کی جائے اور کھڑے ہو کر قبر والے کے حق میں دعاء خیر کی جائے۔ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع میں دعا کرتے تھے۔‘‘ علامہ ابن عابدین شامی کا فتویٰ: ((وَفِی الْاِقْتِصَارِ عَلٰی مَا ذُکِرَ مِنَ الْوَارِدِ اِشَارَۃٌ اِلٰی اَنَّہٗ لَا یَسُنُّ الْاَذَانُ عِنْدَ اِدْخَالِ الْمَیِّتِ فِیْ قَبْرِہٖ کَمَا ہُوَا الْمُعْتَادُ الْاٰنَ وَقَدْ صَرَّحَ ابْنُ حَجَرٍ فِیْ فَتَاوَاہُ بِاَنَّہٗ بِدْعَۃٌ وَقَالَ مَنْ ظَنَّ اَنَّہٗ سُنَّۃٌ قِیَاسًا عَنْ نُدْبِہَا لِلْمُوْلُوْدِ اِلْحَاقًا لِخَاتَمَۃِ الْاَمْرِ بِابْتِدَائِہٖ فَلَمْ یُصِبْ وَقَدْ صَرَّحَ بَعْضُ عُلَمَائِ نَا وَغَیْرِہِمْ بِکَرَاہَۃِ الْمُصَافَحَۃِ الْمُعْتَادَۃِ عَقِبَ الصَّلَوَاتِ مَعَ اَنَّ الْمُصَافَحَۃَ سُنَّۃٌ وَمَا ذَاکَ اِلَّا لِکَوْنِہَا لَمْ تُوْثَرْ فِیْ خُصُوْصِ ہٰذَا الْمَوْضِعِ))[2] یعنی زیارت اور دعا پر اکتفا کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ میت کو قبر میں اتارتے وقت اذان کہنا جیسا کہ آج کل یہ رواج چل نکلا ہے مسنون نہیں اور ابن حجر (مکی) نے اپنے فتاویٰ میں تصریح کی ہے کہ یہ اذان خلاف سنت ہے اور جس نے خاتمہ کو پیدائش کے ساتھ ملحق کرتے ہوئے اس اذان کو پیدائش والی اذان پر قیاس کیا ہے، اس نے ٹھوکر کھائی ہے۔ فتاویٰ عالمگیری: ((وَیَکْرَہُ عِنْدَ الْقَبْرِ مَالَمْ یَعْہَدْ مِنَ السُّنَّۃِ وَالْمَعْہُوْدُ مِنْہَا لَیْسَ
Flag Counter