Maktaba Wahhabi

168 - 242
ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کا قول معتبر ہے نہ کہ ابو بکر شبلی اور ابو حسین نوری ایسے صوفیوں کا عمل۔ اس وقت کے صوفی اپنے پیروں کے عمل کو بہانہ بنا کر رقص و سرود کو دین و مذہب اور اطاعت بنائے پھرتے ہیں ۔ یہ آیت انہی لوگوں کے حق میں نازل ہوئی ہے: ﴿وَاُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَہُمْ لَہْوًا وَّلَعِبًا﴾۔‘‘ قبر پر قرآن خوانی، شیخ علی متقی حنفی کا فتویٰ: قبر پر قرآن پڑھنا، پڑھوانا دونوں خلاف سنت ہیں اور فقہائے احناف نے شریعت کی اس خلاف ورزی کے ردّ میں بہت کچھ لکھا ہے۔ بطور نمونہ از خروائے ملاحظہ فرمائیے: شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے استاذ الاستاذ شیخ علی متقی رسالہ رد بدعات میں لکھتے ہیں : ((اَلْاَوَّلُ الْاِجْتِمَاعُ لِلْقُرْاٰنِ عَلَی الْمَیِّتِ بِالتَّخْصِیْصِ فِی الْمَقْبُرَۃِ اَوِ الْمَسْجِدِ وَالْبَیْتِ بِدْعَۃٌ مَذْمُوْمَۃٌ))[1] ’’میت پر قرآن پڑھنے کے لیے خاص طور پر جمع ہونا، قبر پر یا مسجد میں یا گھر میں شریعت کی سخت خلاف ورزی ہے۔‘‘ شیخ عبدالحق رحمہ اللہ کا فتویٰ: ’’وعادت نبود کہ برائے میت جمع شوند و قرآن خوانند وختمات خوانند نہ برسر گور و نہ غیرآں وایں مجموع بدعت است۔‘‘ [2] ’’میت کے لیے جمع ہونا اور قرآن خوانی کرنا و ختم خواہ قبر کے پاس ہو یا اور جگہ یہ سب خلاف شریعت کام ہیں ۔‘‘ شاہ اسحاق رحمہ اللہ کا فتویٰ: ((اِتِّخَاذُ الْقَارِیِّ عِنْدَ الْقَبْرِ بِدْعَۃٌ وَلَا مَعْنٰی بِصِلَۃِ الْقَارِیْ بِقِرَائَتِہِ وَلَمْ یَفْعَلْہُ اَحَدٌ مِنَ الْخُلَفَآئِ وَالصَّحَابَۃِ))[3]
Flag Counter