Maktaba Wahhabi

169 - 242
’’قرآنی خوانی کے لیے قبر کے پاس قاری بٹھانا شریعت کے خلاف فعل ہے، خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک نے بھی ایسا نہیں کیا۔‘‘ الشیخ محمد آفندی حنفی رحمہ اللہ کا فتویٰ: ((اَوْ اِعْطَائُ دَرَاہِمَ مَعْدُوْدَۃً لِمَنْ یَتْلُوا الْقُرْاٰنَ لِرُوْحِہٖ اَوْ یُسَبِّحُ اَوْ یُہَلِّلُ اَوْبِاَنْ یَبِیْتَ عِنْدَ قَبْرِہٖ رِجَالٌ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً اَوْ اَکْثَرَ اَوْ اَقَلَّ اَوْبِاَنَّ یُبْنٰی عَلٰی قَبْرِہٖ فَکُلُّ ہٰذِہٖ بِدَعٌ مُنْکَرَاتٌ وَالْوَقْفُ وَالْوَصِیَّۃُ بَاطِلَانِ وَالْمَاخُوْذُ مِنْہُمَا حَرَامٌ))[1] ’’قرآن خوانی تسبیح و تہلیل کا ثواب حاصل کرنے کے لیے کسی حافظ کو چند ٹکے پیسے دے کر مقرر کرنا چالیس روز قبر کے پاس شب باشی پر کچھ نقدی دینا وغیرہ شرعاً سخت ناپسندیدہ کام ہیں اور اس طرح کی اجرت لینا دینا حرام ہے۔‘‘ باین ہمہ تصریحات قبر پر قرآن خوانی کے جواز میں کچھ روایات اور آثار مع تبصرہ پیش خدمت ہیں : دلیل اوّل:..... علی بن موسیٰ الحداد کا بیان ہے کہ ایک جنازہ میں امام احمد بن حنبل اور محمد بن قدامہ الجوہری کے ہمراہ میں بھی شریک جنازہ تھا۔ میت کے دفن کے بعد ایک نابینا قبر کے پاس بیٹھ کر قرآن پڑھنے لگا۔ حضرت امام احمد رحمہ اللہ نے قراۃ سے روکتے ہوئے فرمایا: ((ہٰذِہِ الْقِرَائَۃ عِنْدَ الْقَبْرِ بِدْعَۃٌ)) ’’اے فلاں قبر کے پاس قرأۃ بدعت ہے۔‘‘ پھر جب امام احمد رحمہ اللہ بعد از دفن قبرستان سے باہر نکلے تو ابن قدامہ نے مبشر حلبی کے حوالے سے کہا کہ عبدالرحمن کے والد علاء نے اپنی موت کے وقت وصیت کی تھی کہ مجھے دفن کر کے میری قبر کے سرہانے سورۃ البقرہ کا شروع اور پائنتی کی طرف سورۃ البقرہ کا آخری رکوع پڑھا جائے اور کہا کہ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی یہ وصیت کی تھی اس پر امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا:
Flag Counter